بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں گڈانی کے ساحل پر توڑنے کے لیے لائے گئے بحری جہاز میں ممنوعہ کیمیکل مرکری (پارے) کی موجودگی کے خطرے کے باعث جہاز کو سیل کردیا گیا ہے، دوسری جانب ضلعی انتظامیہ نے واقعے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے بدھ کو کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ انکوائری کمیٹی بحری جہاز میں ممنوعہ مرکری کی موجودگی کے باوجود گڈانی شپ بریکنگ یارڈ پر لنگر انداز ہونے کی تحقیقات کرے گی۔
لیاقت شاہوانی نے مزید بتایا کہ بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے جہاز کے مالک پر ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کردیا ہے۔
انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی بلوچستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر عمران سعید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اس بات کی تصدیق کی کہ انہیں وزارت ماحولیاتی تبدیلی اسلام آباد کی طرف سے اطلاع دی گئی کہ اس جہاز میں مرکری کی موجودگی کا خطرہ ہے۔ ’محکمہ ماحولیات اسلام آباد کے خط میں درج ہے کہ انہیں محکم دفاع کی طرف سے اس جہاز کی اطلاع دی گئی۔‘
عمران سعید کے مطابق: ’ہمیں جب اس حوالے سے لیٹر ملا تو اس وقت تک یہ جہاز گڈانی پہنچ چکا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جہاز کو مکمل سیل کرکے اس کے تیل کے نمونے حاصل کرکے لیبارٹری بجھوادیے گئے ہیں اور رپورٹ آنے کے بعد مزید کارروائی کی جائے گی۔‘
عمران سعید نے بتایا کہ ’جب کوئی جہاز یہاں آتا ہے تو محکمہ ماحولیات کا عملہ اس کا مکمل معائنہ کرتا ہے اور خطرناک چیزوں اور کیمیکل نہ ہونے کی تصدیق کے بعد شب بریکر کو اس کی اجازت دی جاتی ہے کہ وہ اسے خالی کرکے توڑنے کا کام شروع کرسکتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مرکری ایک خطرناک چیز ہے، جسے پاکستان لانے پر پابندی عائد ہے۔ اگر یہ کسی کے جسم میں چلا جائے تو اس سے ہاتھ پاؤں ٹیڑھے ہونے کے علاوہ دیگر خطرناک امراض بھی لگ سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے اس بات کی تردید کہ جہاز کو یہاں آنے کی اجازت دی گئی ہے۔ ’یہاں آنے کے بعد جہاز پر کام روکا گیا ہے اور توڑنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔‘
یاد رہے کہ گڈانی شب بریکنگ یارڈ میں 2016 میں پیش آنے والے ایک حادثے میں 20 سے زائد مزدور جھلس گئے تھے، جس کے بعد سخت احکامات اور متعدد اداروں کی تصدیق کے بعد جہازوں کو توڑنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
دوسری جانب شپ بریکنگ ورکرز یونین کے صدر بشیر محمودانی کہتے ہیں کہ اس جہاز کا معاملہ عرصے سے چل رہا ہے اور یہ گڈانی میں ایک مہینے سےکھڑا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا: ’جب ہم نے شپ بریکر سے اس جہاز کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے نہ صرف یہ بتایا کہ انہوں نے تمام اداروں سے اجازت لی ہے بلکہ جہاز کا لیبارٹری ٹیسٹ بھی کروایا ہے۔‘
بشیر نے سوال اٹھایا: ’جب یہ جہاز اجازت لے کر آیا ہے اور یہ خطرناک ہے تو اس کو اجازت کس نے اور کیوں دی؟‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’اتنے وقت کے بعد اب اگر محکمہ ماحولیات نے اس کو سیل کردیا ہے تو اس کی ضرورت اب کیوں پیش آئی؟‘
واضح رہے کہ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں کسی جہاز کو لانے سے قبل محکمہ ماحولیات،کسٹم، بلوچستان ڈویلمپنٹ اتھارٹی اور اسسٹنٹ کمشنر سے اجازت لینا پڑتی ہے، جس کے بعد ہی کسی جہاز کو گڈانی کے ساحل پر لنگر انداز ہونے دیا جاتا ہے۔
بشیر محمودانی کے مطابق: ’کوئی بھی بحری جہاز جب پاکستان آتا ہے تو اسے پہلے کیماڑی میں چیک کرکے کلیئر کیا جاتا ہے، اس کے بعد چار اداروں کی تصدیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جہاز آیا تو اجازت سے ہی ہے، جس کا شپ بریکر کے پاس ثبوت موجود ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ شپ بریکر کا کہنا ہے کہ اگر کسی جہاز میں مرکری کی مقدار 200 فیصد ہو تو یہ خطرناک ہوتی ہے، لیکن اس جہاز میں اس کی مقدار 150 فیصد ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’شپ بریکر رضوان دیوان نے جہاز کے تیل کے نمونے گلوبل انوائرمنٹل لیب سے چیک کروائے ہیں، جس پر 24 مئی 2021 کی تاریخ درج ہے۔‘
بشیر نے بتایا کہ ’شپ بریکر کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے تمام قانونی معاملات طے کرنے کے بعد جہاز کو توڑنے کے لیے گڈانی کے ساحل پر پہنچایا تاکہ اس میں سے تیل نکالنے کے بعد اسے توڑا جائے۔‘
واضح رہے کہ 2016 میں ایک بڑے سانحے کے بعد حکومت بلوچستان نے گڈانی میں جہازوں کے حوالے سے ایس او پیز جاری کیے تھے، جن میں کہا گیا تھا کہ کسی بھی جہاز میں ممنوعہ کیمیکل اور آتش گیر مواد کی چیکنگ اور معائنے کے بعد متعلقہ اداروں کی طرف سے تصدیقی اسناد جاری کی جائیں گی۔
حکومت بلوچستان کی طرف سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ تمام ابتدائی حفاظتی انتظامات اور جہاز کے معائنے کے بعد بلوچستان انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی، بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی، محکمہ لیبر اور کمشنر ڈپٹی کمشنر کے ہمراہ دوبارہ جہاز کا معائنہ کرکے اطمینان کرنے کے بعد اسے کام کا اجازت نامہ جاری کرے گی، جس کے بعد جہاز کو توڑنے کا کام کیا جاسکتا ہے۔