کوئٹہ میں ایرانی نصاب کےتحت چلنے والے چھ سکولوں کی بندش اور مزید دو کی نشاندہی کے بعد ضلعی انتظامیہ اور بلوچستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے عملے نے کارروائی کرتے ہوئے انہیں سیل کردیا ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر کوئٹہ زوہیب الحق کے مطابق ’سیل کردہ سکولوں کے نصاب میں وہ کتابیں شامل ہیں جو فارسی زبان میں ہیں۔ ان میں پاکستان کے حوالے سے کوئی بھی کتاب موجود نہیں ہے۔‘
ذرائع کے مطابق چندماہ قبل پاکستان کے تین سکیورٹی اداروں نے ایرانی سکولوں کے حوالے سے تحقیقات شروع کی تھیں۔ جن کی رپورٹس کی بنیاد پر کارروائی عمل میں لائی گئی۔
اسسٹنٹ کمشنر کوئٹہ کا کہنا ہے کہ ’ان سکولوں میں ایرانی تاریخ اور ثقافت کو فروغ دیا جا رہا تھا۔‘
دوسری جانب ان سکولوں میں ملنے والے مذہبی نصابی کتب کا متعلقہ ادارے جائزہ لے رہے ہیں کہ ان میں کس قسم کا مواد شامل کیا گیا ہے۔
نجی سکولوں کی رجسٹریشن اور چھان بین کرنے والے ادارے بلوچستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے حکام کے مطابق ’تحقیقاتی رپورٹ میں دس سکولوں کی اطلاع دی گئی ہے۔ آٹھ سکول اب تک سیل ہوچکے ہیں۔‘
بلوچستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹرمانیٹرنگ اینڈ ایولیشن شبیر احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے شکایات سامنے آنے کے بعد ان سکولوں کی چھان بین شروع کی۔‘
شبیر احمد نے بتایا کہ ’ادارے نے ان سکولوں کو پہلے لیٹر جاری کیے کہ وہ اپنی رجسٹریشن کے حوالے سے معلوم دیں اگر رجسٹرڈ نہیں ہیں تو کروادیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’لیٹر ملنے کے بعد سکول کے عملے نے رجسٹریشن فارم وصول کیے اور بعد میں انہوں نے جمع کروا دئیے لیکن فارم مکمل نہ ہونے پر ہم نے ان کو واپس کرکے دوبارہ مطلوبہ چیزیں شامل کرنے کا کہا تھا۔‘
شبیر کے بقول ’مذکورہ سکول رجسٹریشن کی شرائط پوری نہ کرسکے اور ہماری ٹیم نے ان کے ذمہ داران سے ملاقات کرکے انہیں بتایا کہ اگر وہ شرائط پوری نہیں کریں گے تو ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں سیل کردیا جائے گا۔‘
بلوچستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ جب ایرانی نصاب پڑھانے والے سکولوں کے ذمہ داران رجسٹریشن کی شرائط پوری نہ کرسکے تو ہم نے کارروائی شروع کی اور پہلے مرحلے میں ہزارہ ٹاؤن کرانی میں واقع چھ سکول بند کردیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شبیر احمد نے بتایا کہ ’مزید دو سکولوں کی نشاندہی کوئٹہ کے علاقے مری آباد میں کی گئی انہیں بھی ہماری ٹیم نے ضلعی انتظامیہ کے ہمراہ چھان بین مواد قبضےمیں لینے کے بعد سیل کردیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’چونکہ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے اور یہاں پر کام کرنے والے تمام تعلیمی ادارے پابند ہیں کہ وہ ملک کے قوانین اور نصاب کے مطابق ہی سکولوں میں تعلیم دے سکتے ہیں۔‘
کارروائی کے دوران ایرانی نصاب پڑھانے والے سکولوں کی انتظامیہ یہ واضح کرنے میں ناکام رہی کہ وہ سکولوں میں پاکستان کے قوانین اور نصاب کے مطابق تعلیم دے رہے ہیں۔
شبیر احمد کے مطابق ان سکولوں کی خلاف جب کارروائی شروع کی گئی تو معلوم ہوا کہ سال 1991 میں محکمہ تعلیم کے ساتھ ایم او یو کے تحت ایک سکول عارضی طور پر قائم کرنے کی اجازت لی گئی تھی۔
بلوچستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے حکام کے مطابق مری آباد میں سیل کیے دو سکولوں میں 200 کے قریب جبکہ پہلے سیل کیے گئے چھ سکولوں میں تقریباً 800 سے 1000 کےقریب طالب علم زیر تعلیم تھے۔
واضح رہے کہ یہ سکول کوئٹہ میں مقیم ہزارہ برادری کے اکثریتی علاقوں ہزارہ ٹاؤن اور مری آباد میں واقع تھے۔ یہ برادری بھی فارسی زبان بولتی ہے۔
حکام کے مطابق سکولوں سے برآمد مواد کے جائزے میں سامنے آیا کہ نصاب میں کوئی بھی پاکستان سٹڈیز کی کتاب شامل نہیں تھی۔ جبکہ دیگر کتابوں میں ایرانی مذہبی رہنماؤں کو پاکستان قومی رہنماؤں کے مقابلےمیں زیادہ اہمیت دی گئی۔
دوسری جانب ان سکولوں میں اردو اور دوسری کوئی مقامی زبان کا مضمون شامل نہیں تھا۔ نہ ہی اس حوالے سے یہ زبان بولنےکے شواہد ملے۔ اس حوالے سے مزید تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔