وادی گلوان میں بھارت اور چین کے درمیان جھڑپ کو ایک سال گزر چکا ہے۔ چینی فوجی اب بھی علاقے میں موجود ہیں اور تعطل ختم ہونے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔
بھارت علاقے میں فوجی ڈھانچہ بہتر بنانے میں مصروف ہے تاکہ فوج کی تعداد بڑھائی جا سکے۔ علاقے میں اس وقت بھارتی فوجیوں کی تعداد50 سے60 ہزار ہے۔
بھارتی جریدے انڈیا ٹوڈے کے مطابق فوج کی تیز نقل وحرکت کے لیے سڑکوں کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔ جب کہ فوجی سازوسامان میں اضافہ ان بنیادی معاملات میں شامل ہے جس پر بھارتی فوج توجہ دے رہی ہے تاکہ لداخ میں جارحیت کے مقابلے کے لیے بہتر انداز میں تیاری کی جاسکے۔ کیونکہ مسئلے کا کوئی حتمی حل دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا۔
بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ اگر چین کی جانب سے جارحیت کی جاتی ہے اور جب بھی کی جاتی ہے بھارت اس کے مقابلے کے لیے تیار ہے۔
جریدے کے مطابق گوگرا، ہاٹ سپرنگز اور ڈیپسانگ کے مقامات کا تنازع ابھی طے ہونا باقی ہے۔ اگرچہ دونوں طرف سے ٹینک اور فوج پیچھے ہٹ چکی ہے اور آمنے سامنے کی محاذ آرائی کی کیفیت نہیں ہے لیکن مشرقی لداخ میں دونوں ملکوں کی فوجیں بدستور موجود ہیں۔
لداخ سے لے کر مغربی تبت تک پھیلی ہوئی پینگونگ سو جھیل کے علاقے میں بھارتی اور چینی فوج کو پیچھے ہٹے چار ماہ ہو چکے ہیں۔ جب کہ مشرقی لداخ کے دوسرے حصوں سے فوجوں کی پرانی پوزیشنوں پر واپسی کے لیے دونوں ملکوں کے کورکمانڈروں کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے دو ماہ بعد چین نے ڈویژن کمانڈرز سطح پر مذاکرات کی تجویز دی ہے۔ بھارت اس تجویز پر غور کر رہا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ڈویژن کمانڈرز کی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں ٹیموں کی سربراہی میجر جنرل عہدے کے افسر کرتے ہیں۔ یہ بات چیت کور کمانڈر کے مذاکرات سے مختلف ہوتی ہے جن میں زیادہ سینیئر افسر شریک ہوتے ہیں۔ ان افسروں کا عہدہ لیفٹیننٹ جنرل ہوتا ہے جو کور اس کے مساوری فوجی فارمیشن کی سربراہی کرتے ہیں۔
ڈویژن کمانڈر سطح کے مذاکرات کی تجویز ایسے وقت دی گئی ہے جب فوجوں کی پرانی پوزیشنوں پر واپسی کے عمل پر تعطل جاری ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان نو اپریل کو کورکمانڈرز کی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں بات آگے نہیں بڑھی۔
15 جون کو دریائے گلوان کی وادی میں چین اور بھارت کی فوجوں کے درمیان جھڑپ کو ایک سال ہو گیا ہے۔ چین کی پیپلزلبریشن آرمی (پی ایل اے)کے ساتھ جھڑپ میں 20 بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔ جب کہ چین نے تاخیر کے ساتھ اپنے چار فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا تھا۔ اس خونریز جھڑپ کے ایک سال بعد دفاعی اسٹیبلشمنٹ کے ایک سینیئر افسر نے کہا ہے کہ چین نے بھارت کو بتا دیا ہے کہ ہاٹ سپرنگز اورگوگرا کی چوکیوں سے چینی فوج کے واپس بلانے کے لیے ڈویژن کمانڈر کی سطح پر مذاکرا ت ہو سکتے ہیں۔ حقیقی لائن آف کنڑول کی دوسری جانب بھارتی علاقے میں واقع ان مقامات پر چینی فوج کے چھوٹے دستے موجود ہیں۔
دفاعی اسٹیبلشمنٹ کے ایک سینیئر افسر کا کہناہے کہ بھارت چین کی تجویز پر غور کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین نے یہ تجویزمختلف سطح پر بھارت تک پہنچائی ہے جن میں ہاٹ لائن پر ہونے والی بات چیت بھی شامل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینیئر فوجی افسر نے چین اوربھارت کے درمیان مستقبل میں کورکمانڈر سطح کے مذاکرات کے امکان کو مسترد نہیں کیا۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ اگر ڈویژن کمانڈرز کی بات چیت میں مسئلے کا حل نکل آیا تو اس صورت میں سینیئر کمانڈرز کو ملنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ انہوں نے وضاحت کی اگرچہ پینگونگ سو کے علاقے دونوں ملکوں کی فوجوں کی واپسی کے بعد سے کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، چین نے دوسرے اختلافی مقامات سے فوج کی واپسی سے انکار نہیں کیا۔ تاہم چین دوسرے مقامات واپسی کے منصوبے سے اتفاق بھی نہیں کیا۔
سینیئر فوجی افسر نے نے اس بات کا ذکر نہیں کیا آیا ڈویژن سطح کے مذاکرات میں ڈیپسانگ کے میدانوں بھی شامل ہوں جہاں چین نے بھارتی فوج کی گشت کی روائتی حدوں پوائنٹ10،11،11 اے،12 اور13 تک رسائی سے روک رکھی ہے۔ یاد رہے کہ حال ہی میں بھارت فوج کے سربراہ جنرل ایم ایم نراوین نے کہا تھا کہ مذاکرات وقت لیں گے۔ انہوں نے1986 میں بھارت اور چین کے درمیان سمڈورونگ وادی پر پیدا ہونے والے تعطل کا حوالہ دیا جسے ختم کرنے میں آٹھ سال لگے۔
2020 میں شروع ہونے والے مشرقی لداخ کے تعطل کو ختم کرنے کے لیے بھارتی اور چینی کورکمانڈرزکے درمیان مذاکرات کے 11 دور ہو چکے ہیں۔ فروری میں بھارتی اور چینی فوج اور بکتر بند دستے پینگونگ جھیل کے شمالی اور جنوبی کناروں سمیت کیلاش رینج سے پیچھے ہٹ گئے تھے۔ واپسی کے اس عمل کے فوری بعد 20 فروری کو فوجی کمانڈروں کا اجلاس ہوا تھا تاہم تنازعے کے دوسرے علاقوں سے واپسی پر کوئی اتفاق نہیں ہو سکا تھا۔