پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ کا کہنا ہے کہ ان کے والد کی تدفین کے ٹو کیمپ فور پر کر دی گئی ہے۔
اپنی ٹویٹ میں ساجد سدپارہ کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنے ہیرو کی لاش کو محفوظ کر دیا ہے۔ اس دوران ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے ایک کوہ پیما نے باٹل نیک سے لاش اٹھانے میں میری مدد کی ہے۔ میں نے پوری قوم کی جانب سے اپنے والد کے لیے دعا اور قران خوانی کی ہے۔ اور اس جگہ پاکستانی جھنڈا نصب کردیا ہے۔‘
جیسمین ٹورز جو ساجد سدپارہ کے سرچ مشن کے انتظامی کمپنی ہے، کے سربراہ اصغر علی پوریک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ساجد سدپارہ اور ان کی ٹیم نے تینوں لاشوں کو کیمپ-فور کے قریب ‘محفوظ’ کردیا ہے اور جب وہ بیس کیمپ واپس آجائیں گے تو لاشوں کو نیچے لانے کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔
اصغر نے بتایا کہ ’لاشوں کو فی الحال محفوط کردیا گیا تاکہ مستقبل میں اس حوالے سے فیصلہ کیا جا سکے۔‘
یاد رہے سوموار کو گلگت ٹورزم پولیس اور الپائن کلب آف پاکستان نے تصدیق کی تھی کہ کے ٹو باٹل نیک سے ملنے والی لاشیں علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کی ہیں۔
الپائن کلب آف پاکستان کے سیکرٹری کرار حیدری کے مطابق کے ٹو کی باٹل نیک کے قریب سے محمد علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں جان سنوری اور جان پابلو موہر کی لاشیں ملنے کی تصدیق ہوئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ بلندی کے باعث لاشوں کو نیچے اتارنا بہت مشکل کام ہے اور اس حوالے سے پاکستانی فوج کا محکمہ ایوی ایشن مدد فراہم کر رہا تھا۔
کرار حیدری کے مطابق جان سنوری کی میت ان کی اہلیہ کی درخواست پر آئس لینڈ منتقل کی جائے گی جب کہ جان پابلو موہر کی والدہ اور بہن کی درخواست پر ان کی لاش بھی ان کے ملک واپس روانہ کی جائے گی۔
الپائن کلب پاکستان میں کوہ پیمائی کو فروغ دینے والی تنظیم ہے، جو 1974 میں قائم کی گئی تھی۔ اس تنظیم میں کوہ پیما بھی شامل ہیں۔
خیال رہے اس سے قبل گلگت بلتستان کی ٹورزم پولیس کا کہنا تھا کہ پاکستان کے کوہ پیما علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کی لاش کو ڈھونڈنے کے لیے کے ٹو پر گئے ہوئے کوہ پیماؤں کو راستے میں دو لاشیں ملی ہیں۔
جب کہ گلگت بلتستان کے وزیر اطلاعات فتح اللہ خان کا نجی چینل جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ علی سدپارہ سمیت لاپتہ ہونے والے تینوں کوہ پیماؤں کی لاشیں تلاش کر لی گئی ہیں۔
تاہم اس وقت تک بیس کیمپ پر موجود ٹیم نے اس بات کی تصدیق نہیں کی تھی۔
محمد علی سدپارہ مشہور کوہ پیما تھے اور اس سال فروری میں وہ کے ٹو کو سر کرنے کی کوشش کے دوران لاپتہ ہو گئے تھے اور انہیں تلاش کرنے کی تمام کوششیں ناکام رہی تھیں۔
لاشیں ملنے کی تصدیق ’مشبرم ایکسپیڈیشن ٹریک اینڈ ٹورز‘ نامی کمپنی نے بھی کی ہے۔ یہی کمپنی ایک بین الاقوامی ٹریکنگ کمپنی میڈیسون ماؤنٹینیئرنگ کےساتھ شراکت میں کے ٹو جانے والے سات ارکان کی ٹیم کو سپورٹ فراہم کر رہی ہے۔
تاہم ان سات کوہ پیماؤں میں ساجد سدپارہ شامل نہیں ہیں کیونکہ علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ کو جیسمین نامی ٹور آپریٹر سپورٹ فراہم کر رہی ہے۔
اسی کمپنی کے سربراہ محمد علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے کمپنی کے سپانسر کیے ہوئے سات ارکان جن میں ساجد سدپارہ شامل نہیں ہے، کے ٹو چوٹی تک رسی لگا رہے تھے کہ کیمپ-44 کے قریب ان کو دو لاشیں ملیں۔ یہ کیمپ کے ٹو سر کرنے کے دوران 7681 میٹر بلندی پر واقع آخری کیمپ ہے جس کے بعد باٹل نیک ہے جو تقریباً 8300 میٹر بلندی پر واقع ہے اور یہ کے ٹو سر کرنے میں سب سے خطرناک مقام تصور کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کے لاپتہ ہونے کے بعد ساجد سدپارہ نے بتایا تھا کہ انھوں نے آخری مرتبہ اپنے والد کو باٹل نیک کے قریب ہی دیکھا تھا۔
مشبرم کمپنی کے محمد علی نے بتایا کہ ’ساجد سدپارہ کو ایک اور ٹور کمپنی سپانسر کر رہی ہے۔ ہمارے ٹیم شیرپاز(وہ لوگ جو کوہ پیماوں کو چوٹیاں سر کرنے میں مدد کرتی ہے اور عموماً ان کے سامان وغیرہ اوپر لے جاتے ہیں) کو جب لاشیں ملیں تو انھوں نے ساجد سدپارہ اور ان کے ٹیم کو اطلاع دی کہ وہ کیمپ چارتک پہنچ جائیں جس کے بعد وہ ابھی راستے میں ہیں۔ جن ارکان کو لاشیں ملی ہیں وہ کیمپ فور کے قریب لائن بچھا رہے تھے۔‘
مشبرم کمپنی کے مطابق ایک لاش باٹل نیک سے 300 میٹر نیچے جب کہ دوسرا باٹل نیک سے 400 میٹر نیچے مل گئی ہے یعنی دونوں لاشیں باٹک نیک کے آس پاس ملیں ہیں۔
مشبرم ایکسپیڈیشن کے سربراہ محمد علی کا کہنا ہے کہ تھوڑی دیر پہلے ان کی شرپا سے بات ہو گئی ہے اور انھوں نے محمد علی سدپارہ سمیت جان سنوری اور جے پی موہر کی لاشیں ملنے کی تصدیق کی ہے۔
علی سدپارہ اور ساتھیوں کی لاشیں ڈھونڈنے کا مشن
پاکستانی کوہ پیما علی سدپارہ رواں سال فروری میں کے ٹو کو موسم سرما میں سر کرنے کے مہم پر تھے۔ نیپالی کوہ پیماؤں کے رواں سال سردی میں کے ٹو سر کرنے کے بعد پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ نے آئس لیںڈ کے جان سنوری اور چلی سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما جان پبلو موہر کے ساتھ سمٹ کا آغاز کیا تاہم پانچ فروری کے بعد سے یہ تینوں کوہ پیما لاپتہ ہوئے تھے اور بعد میں ریسکیو اپریشن کرنے کے بعد ان کا سراغ نہیں ملا تھا۔
علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کی لاشیں ڈھونڈنے کے لیے سکاٹ لینڈ کے ڈاکومینٹری میکر ایلیا شکلائے اور دیگر ساتھیوں سمیت 30 جون کو سرچ مشن کا آغاز کیا۔
ایلیا فروری میں بھی ساجد سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کے ٹو سر کرنے کے مشن پر گئے تھے اور ان کا بنیادی مقصد کے ٹو کو سردی میں سر کرنے کے مہم پر ڈاکومینٹری بنانا تھا۔
اب بھی ایلیا علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کی لاشوں کو ڈھونڈنے کے اس مشن پر ایک دستاویزی فلم تیار کریں گے۔