نوبل انعام یافتہ پاکستانی ملالہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ وہ خود پر حملے کے نو سال بعد بھی طالبان کے ہاتھوں لگی ایک گولی سے صحت یاب ہو رہی ہیں۔
انگریزی ویب سائٹ پوڈیم بلیٹن پر چھپنے والے ایک بلاگ میں ملالہ نے سوات میں نو اکتوبر 2012 کو خود پر ہونے والے حملے کے بعد اپنے سالوں سے جاری علاج کے بارے میں لکھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پشاور میں ڈاکٹروں کے بروقت علاج نے ان کی جان بچائی، تاہم جب ان کے اعضا کام کرنا چھوڑنے لگے تو انہیں ہوائی جہاز سے دارالحکومت اسلام آباد پہنچا دیا گیا، اور ایک ہفتے کے بعد، ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ انہیں زیادہ نگہداشت کی ضرورت ہے اور علاج جاری رکھنے کے لیے انہیں بیرون ملک منتقل کیا جانا چاہیے۔
Nine years after being shot, I am still recovering from just one Taliban bullet. Read more: https://t.co/wrnJIEW06G pic.twitter.com/gd4oow1WIE
— Malala (@Malala) August 24, 2021
انہوں نے لکھا: ’اس وقت کے دوران میں بے ہوشی میں تھی۔ مجھے فائرنگ کے دن سے لے کر اس وقت تک کچھ یاد نہیں جب تک میں برطانیہ میں برمنگھم کے کوئین الزبتھ ہسپتال میں بیدار ہوئی۔ جب میں نے آنکھیں کھولیں تو مجھے احساس ہوا کہ میں زندہ ہوں۔ لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ میں کہاں تھی یا مجھے انگریزی بولنے والے اجنبیوں نے کیوں گھیرا ہوا تھا۔‘
ملالہ کے مطابق ان کے سر میں شدید درد تھا، نظر دھندلی تھی، اور گردن میں ٹیوب نے بات کرنا ناممکن بنایا ہوا تھا، لیکن انہوں نے ایک نوٹ بک میں چیزیں لکھنا شروع کیں اور انہیں اپنے کمرے میں آنے والے ہر شخص کو دکھانا شروع کیا۔
ان کے مطابق اس کے بعد ان کے طویل مدتی علاج اور سرجریوں کا سفر شروع ہوا جو اب بھی جاری ہے۔
وہ لکھتی ہیں: ’دو ہفتے قبل، جب امریکی فوجیں افغانستان سے واپس چلی گئیں اور طالبان نے کنٹرول حاصل کر لیا ، میں بوسٹن کے ایک ہسپتال کے بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملالہ کے مطابق نو اگست کو وہ امریکی شہر بوسٹن میں صبح پانچ بجے اٹھیں تاکہ اپنی تازہ ترین سرجری کے لیے ہسپتال جائیں اور خبروں میں دیکھا کہ طالبان نے افغانستان کے بڑے شہر قندوز پر قبضہ کر لیا ہے۔
’اگلے چند دنوں میں جب میرے چہرے پہ آئس پیک اور سر کے گرد پٹی لپٹی ہوتی تھی، میں نے صوبے پہ صوبہ ان افراد کے ہاتھوں میں جاتے دیکھا جو عین ویسے تھے کہ جیسے اس شخص نے مجھے گولی ماری تھی۔‘
ملالہ کے بقول: ’جیسے ہی میں دوبارہ بیٹھ سکی میں فون کال کر رہی تھی، دنیا بھر کے سربراہان مملکت کو خط لکھ رہی تھی اور افغانستان میں خواتین کے حقوق کے کارکنوں سے بات کر رہی تھی۔‘
’پچھلے دو ہفتوں میں، ہم ان میں سے کئی لوگوں اور ان کے خاندانوں کو محفوظ مقام پر پہنچانے میں مدد کر سکے ہیں۔ لیکن میں جانتی ہوں کہ ہم سب کو نہیں بچا سکتے۔‘
انہوں نے لکھا کہ اگر پاکستان میں صحافی اور چند بین الاقوامی میڈیا آؤٹ لیٹس ان پر حملے کی اطلاع دنیا بھر میں نہیں پھیلاتے تو شاید کسی اخبار کے صفحوں میں گمنام نام رہتیں۔
ملالہ کے بقول: ’نو سال بعد، میں ابھی تک صرف ایک گولی سے صحت یاب ہو رہی ہوں۔ افغانستان کے عوام نے گذشتہ چار دہائیوں میں لاکھوں گولیاں کھائی ہیں۔ میرا دل ان لوگوں کے لیے ٹوٹ جاتا ہے جن کے نام ہم بھول جائیں گے یا کبھی معلوم بھی نہیں ہوں گے، جن کا مدد کے لیے پکارنا بے جواب ہو جائے گا۔‘
’میری حالیہ سرجری کے زخم تازہ ہیں۔ میری پیٹھ پر اب بھی داغ ہے جہاں ڈاکٹروں نے میرے جسم سے گولی نکال دی تھی۔‘