کابل ایئرپورٹ دھماکے: 12 امریکی فوجیوں سمیت 72 افراد ہلاک

افغان طالبان کی جانب سے دھماکوں کی مذمت، شدت پسند تنظیم داعش کا کابل ایئرپورٹ پر دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ

کابل ایئرپورٹ پر دھماکوں  میں زخمی ہونے والی  خواتین کو علاج کے لیے ہسپتال لایا  جارہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں جمعرات کو حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے باہر ہونے والے دو دھماکوں کے نتیجے میں 12 امریکی فوجیوں اور 60 افغان شہریوں سمیت 72 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے۔ واقعے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ایک افغان عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ واقعے میں 60 افغان شہری ہلاک جبکہ 143 زخمی ہوئے۔

دوسری جانب خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میک کینزی نے واقعے میں 12 امریکی فوجیوں کی ہلاکت اور دیگر 15 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی۔

انہوں نے پینٹاگون میں ایک نیوز بریفنگ میں بتایا کہ دھماکوں کے بعد فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس کے نتیجے میں متعدد عام شہری بھی ہلاک اور زخمی ہوئے۔

روئٹرز کے مطابق داعش نے اپنی تشہیر کے لیے قائم کی گئی اعماق نیوز ایجنسی پر اپنے بیان میں دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا۔

اس سے قبل افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے اپنے بیان میں ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ دھماکے اس وقت ہوئے جب وہاں بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے۔‘

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’ہم اس خوفناک واقعے کی مذمت کرتے ہیں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ہر اقدام کریں گے۔‘

پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے ٹوئٹر پر جاری کیے گئے بیان میں انہیں ’پیچیدہ حملے‘ قرار دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں چند امریکی بھی شامل ہیں، لیکن انہوں نے ہلاکتوں کی تعداد نہیں بتائی تھی۔

Statement on this morning's attack at #HKIA: pic.twitter.com/Qb1DIAJQJU

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک دھماکہ ایئرپورٹ کے ایبے گیٹ پر ہوا، جہاں گذشتہ کئی روز سے انخلا کے منتظر افغان شہری سینکڑوں کی تعداد میں موجود تھے جبکہ دوسرا دھماکہ ایبے گیٹ کے قریب ہی واقع بیرون ہوٹل کے پاس ہوا۔

سوشل میڈیا پر کابل ایئرپورٹ کے قریب تیسرے دھماکے کی بھی اطلاعات ہیں، تاہم ان کی تصدیق نہیں کی جاسکی۔

خیال رہے کہ امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک کی جانب سے پہلے ہی کابل ایئرپورٹ پر حملے کے خطرے سے خبردار کیا گیا تھا۔ برطانوی مسلح افواج کے وزیر جیمز ہیپی نے جمعرات کو کہا تھا کہ کابل کے ہوائی اڈے پر بہت جلد سنگین حملے کا خدشہ ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق برطانوی حکومت نے اپنے شہریوں کو حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے دور رہنے کی تنبیہ بھی کی تھی۔

عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

کابل میں موجود انڈپینڈنٹ اردو کے ہارون رشید کو ایک عینی شاہد نے بتایا کہ ’ایئرپورٹ کے باہر جہاں کاغدات دیکھے جاتے ہیں، ہم بھی وہاں موجود تھے کہ شام چار بجے کے قریب زور دار دھماکہ ہوا اور کچھ سمجھ نہیں آئی۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’دھماکے کے بعد کچھ سمجھ نہیں آئی بس جگہ جگہ لوگ گرے پڑے تھے۔‘

عینی شاہد کے مطابق: ’میرے خاندان کے تین لوگ لاپتہ ہیں اور دو زخمی ہیں۔ بہت زیادہ نقصان ہوا ہے، ہلاکتوں کی تعداد کا تو معلوم نہیں لیکن میں بس اپنے زخمیوں کو لے کر ہسپتال کی جانب آ گیا۔‘

ایک اور عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’جب دھماکہ ہوا تو ہر طرف افراتفری مچ گئی، جس پر طالبان نے گیٹ پر لوگوں کے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی۔‘

کابل ایئرپورٹ کے باہر دھماکے کے حوالے سے متعدد سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر تصاویر اور ویڈیوز شیئر کی جا رہی ہیں جنہیں دیکھ کر دھماکے کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

کابل میں موجود انڈپینڈٹ اردو کے ہارون رشید کے مطابق وزارت اطلاعات کے رکن عبدالقہار بلخی نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’بزدلانہ‘ عمل قرار دیا ہے۔

دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد کو کابل کے سرجیکل سینٹر منتقل کیا گیا۔

کابل ایئرپورٹ کے باہر دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات کے بعد نیٹو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’جس حد تک ممکن ہوا لوگوں کو یہاں سے جلدی اور محفوظ نکالنا ہی ہماری ترجیح رہے گی۔‘

پاکستان نے بھی کابل ایئر پورٹ پر ہونے والے دھمکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حملے میں کئی قیمتی جانوں کے ضیاع سمیت متعدد افراد اور بچے زخمی ہوئے ہیں۔


’طالبان کے آنے کے بعد سب سے مشکل کام 31 اگست سے پہلے انخلا مکمل کرنا‘

افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد سے اس وقت سب سے مشکل کام 31 اگست کی ڈیڈ لائن سے پہلے پہلے انخلا کے عمل کو مکمل کرنا ہے۔ اس حوالے سے کئی ممالک نے تو پہلے ہی اپنے آپریشن ختم کر دیے ہیں یا آئندہ کچھ دنوں میں ختم کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

اس حوالے سے ہنگری کا کہنا ہے کہ اس نے افغانستان سے 540 افراد کو نکالنے کے بعد انخلا کے لیے جاری آپریشن ختم کر دیا ہے۔

افغانستان سے نکالے جانے والے ان افراد میں زیادہ تعداد ان افغان شہریوں کی ہے جنہوں نے ہنگری کی فورسز کے ساتھ تعاون کیا تھا۔

ہنگری کے وزیر دفاع نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ’حکومت نے ان تمام افراد کو نکال لیا ہے جنہیں وہ نکالنا چاہتے تھے۔ انخلا کا یہ آپریشن مکمل  ہو گیا ہے۔‘

 

دوسری جانب ڈچ وزیر اعظم نے جمعرات کو اعلان کیا کہ وہ کابل انخلا کے لیے جاری آپریشن روک رہے ہیں۔

انہوں نے اس اقدام کو ’افسوسناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ افغانستان میں ہی رہ جائیں گے۔

اسی طرح فرانس اور بیلجیئم نے بھی اسی طرح کے احکامات جاری کیے ہیں۔ فرانس کا کہنا ہے کہ وہ جمعہ کی شام کو اپنا آپریشن ختم کر دے گا۔

جبکہ پولینڈ نے اپنا آپریشن مکمل کر لیا ہے۔


 کابل کے ہوائی اڈے پر بہت جلد سنگین حملے کا خدشہ

برطانوی مسلح افواج کے وزیر جیمز ہیپی نے جمعرات کو کہا کہ کابل کے ہوائی اڈے پر بہت جلد سنگین حملے کا خدشہ ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق برطانوی حکومت نے اپنے شہریوں کو حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے دور رہنے کی تنبیہ کی ہے۔

ہیپی نے ٹائمز ریڈیو کو بتایا: ’اس ہفتے کے دوران موصول ہونے والی رپورٹس کہیں زیادہ قابل اعتماد بن گئی ہیں اور یہ سنگین نوعیت کا خطرہ ہے۔‘

برطانیہ نے بدھ کو اپنے شہریوں کو کابل کے ہوائی اڈے سے دور رہنے کو کہا ہے، جہاں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد انخلا کی پروازوں میں سوار ہونے کی امید میں بہت بڑا ہجوم جمع ہے۔

دفتر خارجہ اور دولت مشترکہ کے دفتر نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا کہ ’کابل میں حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر سفر نہ کریں کیونکہ یہاں دہشت گردی کا سنگین خطرہ ہے۔‘

تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ نے 13 اگست سے اب تک 11 ہزار 474 افراد کو نکالا ہے، جن میں چھ ہزار 946 افغان شہری شامل ہیں۔

 

 

 


’پاکستانی ٹی وی چینل کے صحافی طالبان کی حراست میں‘

افغان طالبان نے پاکستان میں پشتو زبان کے ٹی وی چینل خیبر نیوز کے چمن کے ایک نمائندے  اور ان کے کیمرہ مین کو سپن بولدک میں داخل ہونے پر حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔

چمن پریس کلب کے نائب صدر نعمت اللہ سرحدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ متین خان اور ان کے کیمرہ مین محمد علی تین دن قبل قندھار گئے تھے، جنہں کل مسلح طالبان نے گرفتار کرلیا۔

نامہ نگار ہزار خان بلوچ کے مطابق نعمت اللہ نے بتایا کہ ان کی متین خان سے کل بات ہوئی جس میں انہوں نے بتایا کہ قندھار میں طالبان نے ان کو عینو مینہ کے علاقے سے گرفتار کرکے بٹھایا ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ طالبان نے متین کو بتایا کہ آپ کو اپنے بڑوں سے ملادیں گے اس کے بعد جانے کی اجازت دیں گے۔ تاہم نعمت کے بقول: ’آج صبح رابطہ کرنے پر متین نے بتایا کہ طالبان نے انہیں رہا کرنے سے انکار کردیا ہے۔‘

نعمت نے بتایا کہ متین کو طالبان نے قندھار میں کوریج کرنے کی وجہ سے گرفتار کیا ہے۔ اس حوالے سے ہم نے طالبان کی قیادت سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی طرف سے جواب دینے سے گریزکیا جارہا ہے۔

ادھر خیبر ٹی وی چینل کے بلوچستان میں بیورو چیف جابر شاہ سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ متین نے انہیں بتایا تھا کہ مرکز سے انہیں قندھار جاکر کوریج کرنے کی ہدایت کی گئی۔

جابر نے کہا: ’میں نے انہیں بتایا کہ رپورٹنگ کرتے وقت احتیاط سے کام لے۔ میں نے کہا کہ پہلے جاکر وہاں طالبان سے ملاقات کرلیں اور پھر اس کے بعد کام کریں۔‘

ان کے مطابق متین نے بتایا کہ پہلی رات انہیں طالبان نے ٹھہرایا اور کہا کہ صبح انہیں جانے دیں مگر اب متین کا نمبر بند آ رہا ہے۔

ادھر متین خان کے قریبی عزیز نعیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمیں بھی یہ اطلاع ملی ہے کہ متین کو قندھار میں طالبان نے گرفتار کرلیا، اس کے بعد ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہوا۔‘


صدر بائیڈن کا افغانستان انخلا سے متعلق مذاق

صدر جو بائیڈن نے ایک ایسے وقت پر انخلا کے بارے میں مذاق کیا ہے جب ہزاروں امریکی اور افغان شہری بدستور افغانستان سے نکلنے کے منتظر ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دی انڈپینڈنٹ کے مطابق اس بحران کے بارے میں اپنی انتظامیہ کے ردعمل کا بھرپور دفاع کرنے والے صدر بائیڈن سے جب این بی سی نیوز کے رپورٹر پیٹر الیگزینڈر نے پوچھا کہ اگر 31 اگست کی ڈیڈ لائن کے بعد بھی افغانستان میں امریکی رہ جاتے ہیں تو وہ کیا کریں گے؟

اس پر کمانڈر ان چیف مسکرائے اور جواب دیا، ’ایسے میں آپ پہلے شخص ہوں گے جنہیں میں کال کروں گا۔‘

صدر بائیڈن سے یہ سوال اس وقت پوچھا گیا جب وہ وائٹ ہاؤس میں کاروباری رہنماؤں کے ساتھ سائبرسکیورٹی سمٹ میں شریک تھے۔

 

اس سوال کے جواب کے دوران وائٹ ہاؤس سے آڈیو فیڈ منقطع ہو گئی۔

صدر کی پریس سکریٹری جین ساکی نے بعد ازاں صحافیوں کے ساتھ روزانہ کی بریفنگ میں اپنے باس کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کابل کی صورتحال کے بارے میں تازہ ترین معلومات فراہم کی ہیں۔

’انہوں نے اس حقیقت کو بھی اجاگر کیا کہ ہم آئی ایس آئی ایس کے خطرے کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔‘


مزید 1500 امریکیوں کو افغانستان سے نکالنے کی ضرورت ہے‘

امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے بدھ کو کہا ہے کہ تقریباً 1500 امریکی شہریوں کو اب بھی افغانستان سے نکالنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

ادھر طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ 31 اگست کو انخلا کی ڈیڈ لائن کے بعد مزید کچھ انخلا کی اجازت دیں گے۔

اے ایف پی کے مطابق بلنکن نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ افغانستان چھوڑنے کے خواہش مند 6000 امریکیوں میں سے کم از کم 4500 یہاں سے جا چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکام مزید 500 امریکیوں کے ساتھ ’براہ راست رابطے‘ میں ہیں جو وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں اور انہیں ’محفوظ طریقے سے ہوائی اڈے تک پہنچنے کے بارے میں مخصوص ہدایات‘ فراہم کی گئی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ حکام بقیہ ایک ہزار امریکیوں سے رابطے کر رہے ہیں تاکہ ’معلوم کیا جا سکے کہ وہ افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں یا نہیں۔‘

بلینکن نے کہا، ’کچھ نے ملک میں ٹھرنے کا فیصلہ کیا ہے، کچھ امریکی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن وہ ہیں نہیں جبکہ کچھ شاید ملک سے پہلے ہی جا چکے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں موجود تقریباً ایک ہزار امریکیوں میں سے نکلنے کے خواہش مندوں کی تعداد نمایاں طور پر کم ہے۔

امریکی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ طالبان نے ہامی بھری ہے کہ وہ امریکیوں اور ’خطرے سے دوچار‘ افغان شہریوں کو 31 اگست کی ڈیڈ لائن کے بعد بھی جانے کی اجازت دیں گے۔


کابل ہوائی اڈے پر ’دہشت گردی کا انتہائی خطرہ‘،علاقہ خالی کرنے کی ہدایت

امریکہ نے کابل ہوائی اڈے تک پہنچنے کی کوشش کرنے والے ہجوم کو علاقے سے نکل جانے کے لیے خبردار کیا ہے جبکہ برطانیہ اور آسٹریلیا نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہوائی اڈے پر دہشت گردی کا ’انتہائی خطرہ‘ ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بدھ کو رات گئے لندن، کینبرا اور واشنگٹن سے قریب قریب یکساں سفری انتباہ سامنے آئے ہیں جن میں افغان شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ علاقہ خالی کرتے ہوئے کسی محفوظ مقام پر منتقل ہو جائیں۔

کئی دنوں سے ہزاروں خوف زدہ افغان شہری اور غیر ملکی افراد طالبان حکومت سے فرار ہونے کی امید پر کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے کے آس پاس موجود ہیں۔

ہوائی اڈے کے بارے میں سکیورٹی انتباہ غیر واضح ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے نامعلوم ’سکیورٹی خطرے‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’ایبے گیٹ، ایسٹ گیٹ یا نارتھ گیٹ پر موجود افراد کو فوری طور پر نکل جانا چاہیے۔‘

آسٹریلیا کے محکمہ خارجہ نے کہا کہ دہشت گردوں کے حملے کا بہت بڑا خطرہ موجود ہے۔ ’کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے کی جانب سفر نہ کریں۔ اگر آپ ہوائی اڈے کے علاقے میں ہیں تو وہاں سے چلے جائیں اور مزید ہدایات کا انتظار کریں۔‘

لندن نے بھی اسی طرح کی وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ دوسرے طریقوں سے افغانستان کو محفوظ طریقے سے چھوڑ سکتے ہیں تو آپ کو فوری طور پر ایسا کرنا چاہیے۔‘

واشنگٹن اور اس کے اتحادی روزانہ ہزاروں افغانوں کو دیو ہیکل فوجی طیاروں کی مدد سے افغانستان سے نکال رہے ہیں لیکن یہ ایک مشکل کام بن گیا ہے۔

انخلا کے لیے کچھ پروازیں پہلے ہی ختم ہوچکی ہیں اور 31 اگست کو ایسی مزید پروازیں ختم ہو جائیں گی۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا