گذشتہ ایک دو ہفتے میرے لیے جذباتی و نفسیاتی طور پر ایک ڈراؤنے خواب کی طرح تھے۔ ہر صبح ایک امتحان کی طرح گزری۔
گذشتہ کئی روز سے میں صبح سے دوپہر اپنے بیٹے کے سکول کے باہر گاڑی میں بیٹھ کر اس کی چھٹی کا انتظار کرتی رہی ہوں۔ میرا بیٹا چھ برس کا ہے اور پہلی جماعت کا طالب علم ہے۔ ہر روز سکول جانے کے نام سے وہ پریشان ہو جاتا، رات کو رو رو کر التجا کرتا کہ ’ماما میں نے کل سکول نہیں جانا‘، اور میرے انکار پر وہ مجھ سے وعدہ لیتا کہ میں اس کے ساتھ سکول میں ہی رہوں گی۔
صبح گاڑی سے اترنے سے کلاس روم میں جانے تک ہمیں 15 سے 20 منٹ لگتے، اس کے چہرے پر گاڑی سے اترتے ہوئے ایک رنگ آتا ایک جاتا۔ یہاں تک کہ بعض اوقات وہ اسی کیفیت میں گاڑی میں قے بھی کر دیتا۔ کئی بار سکول کے گیٹ سے مجھے اسے واپس گھر لانا پڑتا۔ یا ہم دونوں سکول کے آفس میں بیٹھتے جہاں کوئی ایک ٹیچر آ کر اسے اس بات پر آمادہ کرتیں کہ وہ کلاس میں چلا جائے۔
مجھے یہ سب پریشان کر رہا تھا۔ میں نے اس سے بہت پوچھا کہ سکول میں کوئی تنگ کرتا ہے، ٹیچز سخت ہے یا کوئی اور مسئلہ، لیکن اس کے منہ پر صرف ایک بات ہوتی: ’ماما آپ وہاں نہیں ہوتیں، مجھے اچھا نہیں لگتا۔ آپ میری کلاس میں بیٹھا کرو۔ چھٹی بہت دیر سے ہوتی ہے اور ٹیچر بہت زیادہ کام کرواتی ہیں۔‘
میں کچھ روز تو اسے کلاس تک خود چھوڑ کر آتی لیکن چھوڑنے کے بعد سیڑہیاں اتر کر نیچے آنے تک اس کے رونے اور مجھے پکارنے کی آواز میرے اعصاب شل کر دیتی۔
میرا بچہ ایسی صورت حال سے اکیلا دوچار نہیں تھا بلکہ سکول کے باہر میں بہت سے بچوں کو گاڑی سے روتے ہوئے اترتے دیکھتی یا ماؤں کے ساتھ چپکے ہوئے یہ کہتی سنتی کہ ’ماما مجھے گھر جانا ہے۔‘
میں نے دیگر والدین سے رابطہ شروع کیا جن کے بچے اور سکولوں میں پڑھ رہے تھے تاکہ جان سکوں کہ ان کے بچوں کو کیا مسائل درپیش ہیں۔ کچھ والدین نے تو بتایا کہ ان کے بچے ان کے لیے ایسا مسئلہ نہیں کر رہے جیسا میرا بچہ کر رہا ہے۔
رابعہ شجاعت کی دو بیٹیاں ہیں۔ کرونا لاک ڈاؤن کے بعد ان کی چھوٹی بیٹی پہلی بار سکول جا رہی تھی۔ ان سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا: ’مجھے بڑی بیٹی کی تو ٹینشن نہیں تھی البتہ چھوٹی کی تھوڑی سی فکر تھی لیکن میری بڑی بیٹی کو دیکھتے ہوئے وہ بھی خوشی خوشی سکول گئی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں بہنوں کی آپس میں دوستی ہے اس لیے سکول میں بھی وہ ساتھ ہوتی ہیں اور اسی لیے انہیں پریشانی نہیں ہوئی۔‘
لیکن اس کے ساتھ ساتھ رابعہ نے سکول والوں کی بھی تعریف کی کہ انہوں نے سکول میں بچوں کو پڑھائی شروع کروانے سے پہلے کچھ ایسی سرگرمیاں کروائیں جیسے فرینڈز ڈے یا پالتو جانوروں کا دن جس سے انہوں نے بچوں کو اس بات پر راغب کیا کہ سکول آنا ایک بہت ہی مزے کی بات ہے اور انہیں آہستہ آہستہ تھوڑا تھوڑا کام کروا کر سکول کا عادی بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی چھوٹی بیٹی اب بڑے شوق اور جذبے کے ساتھ سکول جاتی ہے۔
مسز امیر کی بیٹی بھی چھ برس کی ہے اور کلاس ون میں پڑھتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی رات کو سونے سے پہلے تنگ کرتی ہے کہ اسے گھر پر رہنا ہے۔ صبح سکول پہنچ کر بھی اس کا موڈ خراب ہوتا ہے لیکن وہ اسے آہستہ آہستہ سمجھا رہی ہیں کہ سکول جانا ضروری ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ مسسز امیر خود بھی ایک ٹیچر ہیں اور ان کے مشاہدے میں بھی یہی بات آئی کہ چھوٹے بچے جو پرائمری لیول کے ہیں وہ سکول آنے کے لیے خوش نہیں ہیں۔
مسز انجم کی صورت حال بھی میرے جیسی ہی نکلی۔ ان کے دو چھوٹے بچے ہیں ایک پہلی جماعت کا طالب علم ہے اور دوسرا دوسری جماعت کا۔ مسز انجم کو دونوں کے ساتھ مشکل وقت کا سامنہ ہے۔ انہوں نے بتایا: ’میرے بچے ایک خوف میں مبتلا ہیں۔ اور ان کو مجھ سے بچھڑنے کا خوف ہے اور یہ خوف اس حد تکہےکہ ہر روز وہ صبح سکول کے گیٹ پر قے کر کے اندر جاتے ہیں۔ مجھ سے لپٹ جاتے ہیں اور التجا کرتے ہیں کہ میں انہیں گھر لے جاؤں۔ البتہ ان کی کلاس ٹیچر نے مجھے بتایا ہے کہ جب میں انہیں کلاس میں چھوڑ کر چلی جاتی ہوں تو وہ بھول جاتے ہیں کہ ماں چھوڑ کر چلی گئی ہے۔ وہ بالکل نارمل بچوں کی طرح پڑھتے اور کھیلتے کوددتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تو مسئلہ سکول پہنچنے اور کلاس روم کے اندر تک جانے کے دوران کا تھا۔ میں نے اپنے بیٹے کی صورت حال کے حوالے سے ایک ماہر نفسیات سے بات کی۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں خود کو اپنے بیٹے سے تھوڑا سا دور کروں۔ اس کے لیے ایسا ماحول بناؤں جس میں وہ خودمختاری کے ساتھ سکول کا کام کرے یا کھیلے اور اسے اس کی عمر کے بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کا موقع دوں۔ ہاں انہوں نے یہ بھی کہا کہ سکول سے چھٹی ہر گز نہ کرواؤں۔
میں نے ان کی بات پر عمل کیا اور چند روز سے تبدیلی کو محسوس کیا۔ اب میرا بیٹا اس حد تک آگیا ہے کہ وہ سکول کے گیٹ سے خود اندر جاتا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ گیٹ پر وہ مجھ سے وعدہ لیتا ہے کہ میں وہیں گاڑی میں بیٹھوں گی اور چھٹی کے وقت اندر آفس میں آجاؤں گی تاکہ اسے کلاس سے آتے ہی میرا چہرہ دکھائی دے۔ میں نے ایک دو بار ایسا کیا لیکن اب نہیں۔ اب میں نے اسے یہ بھی بتانا شروع کیا ہے کہ میں اسے سکول چھوڑ کر گھر چلی گئی تھی۔
وبا سے ذہنی صحت کے مسائل
جریدے دا لینسٹ میں حال ہی میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق 2020 میں دنیا بھر میں کرونا وبا کے باعث لوگوں میں بالترتیب ڈپریشن اور گھبراہٹ یا بےچینی میں 28 فیصد اور 26 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ تحقیق کے مطابق یہ اضفہ زیادہ تر کم عمر افراد اور خواتین میں دیکھا گیا۔ ان حالات میں بچوں کا بھی متاثر ہونا ناگزیر تھا۔
سکول جاتے بچوں کا موڈ خراب ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ ایک نجی سکول کی پرنسپل تہمینہ ابراہیم بتاتی ہیں کہ چھوٹے بچوں کا سکول آنے کا دل ویسے بھی نہیں کرتا۔ ہمیشہ آپ کو پلے گروپ سے لے کر پہلی دوسری جماعت کے بچے سکول آتے روتے یا ناخوش دکھائی دیں گے لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ لمبے لاک ڈاؤن کے بعد جب سکول کھلے تو بچے سکول آنے میں مسئلہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں لیکن ہم بھی کیا کر سکتے ہیں۔ ہمیں بچوں کا نصاب ختم کروانا ہے اور آن لائن کلاسز میں بچے ویسے بھی اس طرح سیکھ نہیں پائے جیسا وہ کلاس روم کے اندر سیکھتے ہیں اس لیے ہمیں دو گنی محنت کرنا پڑ رہی ہے۔ شاید یہ پریشر بھی بچے محسوس کر رہے ہیں کیونکہ وہ معمول کی زندگی میں ایک لمبے عرصے کے بعد داخل ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس وقت کلاسز میں بچوں کی تعداد بھی اسی وجہ سے کم ہے کہ ایک بچہ ایک دن آتا ہے تو دوسرے روز چھٹی کرتا ہے یا سکول آ کر واپس چلا جاتا ہے اور وجہ یہی ہے کہ سکول آتے ہوئے چھوٹے بچے گھبرا رہے ہیں کیونکہ انہیں ماں سے الگ ہونا پڑتا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران بچوں کا زیادہ وقت اپنی ماؤں کے ساتھ ہی گزارا ہے اور وہ اس کے عادی ہوگئے ہیں۔
بجے اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہیں؟
لاہور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں بچوں کی نفسیات کی ماہر پروفیسر ڈاکٹر نازش عمران نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مشاہدے میں یہی آرہا ہے کہ سکول پوری طرح سے کھلنے کے بعد سے بچوں میں مسائل آرہے ہیں۔
انہوں نے کہا یہ بات بالکل سمجھ میں بھی آتی ہے، کیونکہ وبا کا اثر چھوٹے اور بالغ ہوتے بچوں پر ہوا ہے۔ ’جو بچے پہلے سکول جارہے تھے وہ گھر پر رہے۔ ان کے سونے جاگنے کا معمول خراب ہوا۔ سب سے اہم ان کا سکرین ٹائم بہت حد تک بڑھ گیا اور جسمانی سرگرمیاں ختم ہو گئیں۔ پھر بہت سے بچوں نے کرونا وبا کے دوران گھروں میں ایسی صورت حال بھی دیکھی جس میں انہیں کسی نہ کسی دکھ سے گزرنا پڑا جیسے کوئی بہت پیارا بیمار ہوا یا دنیا سے چلا گیا۔‘
ڈاکٹر نازش عمران کے مطابق ایک خوف کا عالم تھا جو بڑوں پر بھی اثر انداز ہو رہا تھا۔ اس میں بچوں نے یہ بھی دیکھا کہ گذشتہ ڈیڑھ برس سے والدین بھی بہت سی وجوحات کی بنا پر بہت زیادہ ذہنی دباؤ میں تھے تو ان سب باتوں کا اثر بچوں پر بھی آتا ہے۔
انہوں نے کہا: ’چھوٹے بچے عموماً اپنی بات سمجھا نہیں پاتے اس لیے ان کے رویوں میں واضع تبدیلی آتی ہے جو دکھائی بھی دیتی ہے۔ وہ چڑچڑے ہو جاتے ہیں، خود کو خوف زدہ اور غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں کہ کہیں ماں ان سے دور نہ ہوجائے۔ یہ سارے عوامل مل کر اسے سکول جانے سے خوفزدہ کرتے ہیں۔ اور کرونا کے بعد یہ اینگزائٹی (گھبراہٹ) بچوں میں بڑھی ہے۔‘
بچوں کی ماہر نفسیات آمنہ بشیر نے بتایا کہ ان کے پاس بھی ایسے والدین آئے ہیں جو اس مسئلے کا شکار ہیں کہ ان کا بچہ سکول جانے سے کترا رہا ہے۔ ’میں انہیں یہی بتاتی ہوں کہ یہ سب نارمل ہے کیونکہ بچے ایک لمبے عرصے کے بعد سکول گئے ہیں۔ آپ بچوں کے رونے دھونے کو نظر انداز کریں اور اسے ہر صورت سکول بھیجیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس 12 سے 13 برس کے بچے بھی آئے جنہوں نے سکول جانے میں بے دلی کا اظہار کیا اور بتایا کہ وہ گھر پر رہنا چاہتے ہیں کیونکہ گھروں پر وہ موبائلز، یا دیگر گیجٹس کے ساتھ اپنا وقت گزار رہے تھے جس میں انہیں مزہ آرہا تھا۔ یہ بچے اپنے دوستوں سے بھی ملنا چاہتے ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ سکول دو یا تین دن کے لیے کھلنا چاہیے باقی دن انہیں گھروں پر رہنا چاہیے۔
آمنہ کا کہنا ہے کہ اگر چھوٹا بچہ مسلسل سکول جانے میں تنگ کر رہا ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سکولوں نے بچوں پر ایک دم سے پڑھائی کا دباؤ بھی زیادہ ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے یہ مسائل دیکھنے میں آرہے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر نازش کہتی ہیں وبا کے علاوہ بھی دیکھا جائے تو کچھ بچوں کو سکول جانے کا عادی ہونے میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں، جو معمول کی بات ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کرونا کی وبا اور لمبے لاک ڈاؤن کے سبب یہ صورت حال خراب ہوئی ہے اور اس لیے بچوں کو سکول کا عادی ہونے میں زیادہ وقت لگ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر صورت حال قابو سے باہر ہو گئی ہے اور بچہ سکول جانے سے مسلسل گھبرا رہا ہے اور اس کا اثر اس کی روز مرہ زندگی کے معمول جیسے کھیل یا ہوم ورک پر آ رہا ہو تو پھر ہم اینگزائٹی ڈس آرڈر کی بات کرتے ہیں کہ آیا وہ جنرلائزڈ ایگزائٹی ڈس آرڈر ہے یا سیپریشن اینگزائٹی ڈس آرڈر، یعنی عام گھبراہٹ یا پھر علیحدہ ہونے کی گھبراہٹ۔
انہوں نے بتایا کہ تشخیص کے لیے مختلف چیزیں دیکھنی ہوتی ہیں۔ اگر بچہ سکول جاتے مسئلہ کر رہا ہے یہاں تک کہ کچھ دیر بعد آپ کو سکول سے کال آجاتی ہے کہ آ پ کا بچہ الٹیاں کر رہا ہے، رو رہا ہے اور کلاس میں باقی بچوں کی طرح نہیں بیٹھ رہا نہ پڑھ رہا ہے نہ کھیل رہا ہے تو پھر تو آپ اسے سیپریشن اینگزائٹی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اگر بچہ کلاس میں جاتے ہی نارمل ہو جاتا ہے تو یہ ایک معمول کا ردعمل ہے جسے ٹھیک ہونے میں چند دن، ایک ہفتہ اور بعض اوقات تین ہفتے ٓبھی لگ سکتے ہیں۔
والدین کو کیا کرنا چاہیے؟
پروفیسر نازش کہتی ہیں کہ والدین خاص طور پر والدہ کے لیے یہ بہت تکلیف دہ بات ہوتی ہے کہ آپ بچے کو سکول چھوڑنے جا رہے ہوں، وہ مسلسل رو رہا ہو اور آپ سے چپک رہا ہو۔
ایسی صورت حال میں والدین خود ذہنی دباؤ میں آ جاتے ہیں اور سب سے پہلے تو انہیں اس پر قابو پانا چاہیے۔ ’ضروری ہے کہ جب بچہ گھر پر ہو تو والدین اس کے ساتھ معیاری وقت گزاریں، اس کے ساتھ کھیلیں خاص طور پر والدہ۔ اس سے وہ خود کو محفوظ محسوس کریں گے اور دماغی طور پر بھی پر سکون ہو جائیں گے۔‘
پروفیسر نازش نے کہا کہ رات کو سونے سے پہلے بچے کو وہ ماحول دیں جو اسے پسند ہے تاکہ وہ پر سکون ہو جائے اور اسے آرام سے پیار سے بتائیں کے آپ اسے سکول چھوڑنے خود جائیں گی اور واپسی پر بھی خود لے کر آئیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی صورت حال میں بچے پر چیخنا یا اسے ڈانٹنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اسے یقین دلائیں کہ آپ اس کے ساتھ ہیں جیسے اگر وہ یہ چاہتا ہے کہ آپ سکول میں بیٹھیں تو چند روز ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ شروع میں ایک دو روز متوراتر ایسا کریں پھر آہستہ آہستہ اسے کم کریں۔ اس طرح جب بچے کو اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ اسے سکول چھوڑا جاتا ہے اور ایک مخصوص وقت پر اسے واپس گھر لے جایا جاتا ہے تو بچہ بھی اس معمول کا عادی ہونے لگتا ہے۔
اس کے علاوہ بچوں کو انعام دیں کہ اگر آپ سکول جائیں گے تو ٹیچز ان کو سٹیکر دیں گی یا سٹار دیں گی یا والدہ خود چھٹی کے وقت اس کی کھانے کی کوئی پسندیدہ چیز جیسے کوئی ٹافی وغیرہ اسے دیں۔
ماہر نفسیات آمنہ بشیر کہتی ہیں کہ بچے کو سکول ہر صورت بھیجیں اور جب بچہ رو رہا ہو تو اس کو نظر انداز کریں اس کے سامنے کسی قسم کا جذباتی ردعمل جیسے غصہ یا پیار کا اظہار نہ کریں۔ چہرے پر کسی قسم کا کوئی ردعمل نہ لائیں۔ کوشش کریں کہ سکول پہنچ کر کسی ٹیچر یا مدد گار سے کہیں کہ وہ بچے کو لے لیں اور سکول کے اندر لے جائیں۔ اس سے بچے کو اندازہ ہو جائے گا کہ سکول جانے کے علاوہ اس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
ڈاکٹر نازش کے خیال میں والدین کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ آیا ان کے گھر میں پہلے سے کوئی نفسیاتی مسائل چل رہے ہیں یا بچے کی والدہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوں یا بچے کی کم عمری میں کسی بہت پیارے سے جدائی ہوئی ہو۔ ایسی صورت حال میں بھی بچے بہت غیہر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہا کہ مسئلہ مستقل رہتا ہے کہ سکول کا نام سنتے ہی بچے ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں، اور وقت گزرنے کے بعد بھی بچہ نارمل نہیں ہو رہا تو تب بہت ضروری ہے کہ آپ اپنے بچے کو کسی ماہر نفسیات کو دکھائیں۔
سکول ٹیچرز کیا کر سکتے ہیں؟
پروفیسر نازش کا کہنا ہے: ’اگر ایک روتا ہوا بچہ کلاس میں داخل ہو اور اس کی ٹیچز اسے ڈانٹتی ہے تو یہ کسی صورت بھی فائدہ نہیں دے گا۔ بچہ اصل میں مثبت رویہ اور یقین دہانی کا منتظر ہوتا ہے۔ ایسے میں ڈانٹ ڈپٹ کرنے سے ہو سکتا ہے کہ بچہ رونا بند کر دے، ڈر کر بیٹھ جائے لیکن عموماً اس کا نقصان ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ سکولوں میں اساتذہ کو بھی یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ بچے اتنا عرصہ سکول سے دور رہے ہیں اس لیے انہیں یہ پالیسی بنانی چاہیے کہ صبح کے وقت پڑھائی سے پہلے وہ بچوں کو کوئی ایسی سرگرمی کروائیں جیسے کوئی ڈرائنیگ بنوا لیں یا کوئی کہانی سنا دیں، جس سے بچہ پرسکون ہو جائے گا اور ٹیچر اسے جو پڑھانا چاہ رہا ہے بچہ اسے پرسکون ذہن کے ساتھ زیادہ بہتر طریقے سے سیکھے گا۔ ’اساتذہ دراصل نصاب کوور کروانے کے چکر میں پیریڈ پر پیریڈ لیے جاتے ہیں جس سے بچے ذہنی دباؤ میں آجاتے ہیں اور پڑھائی میں مزہ محسوس نہیں کرتے۔‘
پروفیسر نازش کہتی ہیں کہ ہم سب کو اس بات کو سوچنا چاہیے کہ بچے ایک لمبے عرصے سے سکول نہیں گئے اور اس کا ایک منفی اثر ان کی ذہنی و جسمانی صحت پر ہوا ہے اور انہیں معمول پر آتے آتے وقت لگے گا۔ اس لیے والدین کو لچک دکھانی چاہیے اور سکولوں کو بھی ابتدائی طور پر بچوں پر پڑھائی کا بہت زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔