پاکستان نے اپنی کرکٹ کی تاریخ میں چند ہی آف سپنر پیدا کیے ہیں جن میں توصیف احمد، ثقلین مشتاق اور سعید اجمل سب سےآگے ہیں۔
سعید اجمل جنہیں کمنٹیٹرز میجیشن یا جادوگر کہتے تھے، حقیقت میں بولنگ کے جادوگر تھے۔ وہ گیند کو اتنی مہارت سے دوسری طرف موڑتے تھے کہ بلے باز کو آخری وقت تک پتہ نہیں چلتا تھا۔
وہ تاخیر سے ٹیسٹ کرکٹ میں آئے اور زیادہ میچ نہیں کھیل پائے، لیکن جتنا بھی کھیلے شہرت کے آسمان پر جا کر کھیلے۔ ان کی بولنگ سے مرحوم باب ولس تو اتنا خوفزدہ ہوئے تھے کہ سعید اجمل کے لیے آدھی آستین کی قمیص کا مطالبہ کرنے لگے تھے، جیسے ان کی آستین کے کف میں کچھ جادو ہو۔
سعید اجمل نے متعدد بار پاکستان کی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی بولنگ پر سچن ٹنڈولکر اور مائیکل کلارک جیسے مہان بلے باز بھی گھبرا جاتے تھے۔
سعید اجمل سب کچھ بھول سکتے ہیں، لیکن ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2010 کا سیمی فائنل کبھی نہیں بھولیں گے۔
آسٹریلیا سے سیمی فائنل
ویسٹ انڈیز میں ہونے والے ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم فیورٹ تھی اور آخری کپ کی حامل بھی تھی۔ ٹیم میں بہترین بلے باز، بولرز اور آل راؤنڈرز تھے۔ اس لیے سب کو امید تھی کہ پاکستان پھر سے فاتح ہوگا۔
14 مئی 2010 کی روشن صبح سینٹ لوسیا کے جزیرے پر ہلکی ہوا اور جزوی بادلوں سے امید تھی کہ شروع میں گیند سوئنگم لے گی۔
یہ سوچ کر آسٹریلیا کے کپتان مائیکل کلارک نے ٹاس جیت کر پاکستان کو بیٹنگ کی دعوت دے دی۔
پاکستانی بیٹنگ کے اس وقت کے بڑے ستارے اکمل برادران تھے۔ دونوں کا طوطی بول رہا تھا۔ اس میچ میں بھی دونوں نے نصف سنچریاں کرکے اپنے کمال کو اوج کمال تک پہنچا دیا اور پاکستان نے دونوں کی مدد سے 20 اوورز میں 191 رنز کا مجموعہ سجایا۔
شاہینوں کی بولنگ
آسٹریلیا جیسی مثالی بیٹنگ لائن ان دنوں کسی کے پاس بھی نہیں تھی۔ ڈیوڈ وارنر، شین واٹسن، بریڈ ہیڈن اور مائیکل کلارک جیسے بلےباز کسی کے پاس نہیں تھے اور ان کے لیے 191 کا ہدف زیادہ مشکل نہ تھا۔
لیکن اس دن وارنر کی بدقسمتی پاکستان کے کام آگئی اور وہ پہلے ہی اوور میں عامر کا نشانہ بن گئے۔ واٹسن کو بھی کچھ دیر بعد عامر نے ٹھکانے لگا دیا۔
ایسے میں پاور پلے ختم ہوتے ہی سعید اجمل نے بولنگ شروع کی اور کینگروز کو رنز بنانے میں مشکل ہونے لگی۔
رنز بنانے کی جلدی نے کینگروز کے تین اچھے بلے باز سٹمپ آؤٹ کرا دئیے۔ یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ 105 رنز پر پانچ بہترین کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے اور 13 اوورز بھی گزر چکے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یعنی اب سات اوورز میں 87 رنز بنانا تھے اور وکٹ پر کیمرون وائٹ اور مائیکل ہسی تھے۔
کیمرون نے شاہد آفریدی کے ایک اوور میں دو چھکے لگا کر سکور تیز کیا اور سکور کو 144 تک لے گئے۔ اس موقعے پر عامر نے پھر کام دکھایا اور وائٹ کو آؤٹ کردیا جبکہ سٹیو سمتھ کو سعید اجمل نے سٹمپ کرا دیا۔
سات وکٹوں کے نقصان اور 18 اوورز کے گزرنے کے بعد کینگروز 34 رنز پیچھے تھے۔
شکست اپنے پنجے گاڑ رہی تھی اور گرین شرٹس فائنل کی بُو سونگھنے لگے تھے۔
بس یہیں بائیں ہاتھ کے بلے باز مائیکل ہسی کا کھیل شروع ہوا۔
پہلے تو انہوں نے عامر کے 19ویں اوور میں 16 رنز بنا ڈالے اور پھر آخری اوور کے لیے شاہد آفریدی کو سوچنے پر مجبور کردیا
سعید اجمل یا عبد الرزاق
شاید کپتان کو بھروسہ تھا کہ سعید اجمل کی گھومتی ہوئی گیندوں پر ہسی اونچی ہِٹ نہیں لگا سکیں گے۔
سعید اجمل نے گیند جب ہاتھ میں لی تو گمان بھی نہیں تھا کہ اب کیا ہونے جارہا ہے۔
آخری اوور، 18 رنز اور جادوگر کے ہاتھ میں گیند
سامنے مچل جونسن تھے۔ انہوں نے پہلی گیند پر ایک رن لے کر سٹرائیک ہسی کو دے دی اور ہسی نے دوسری گیند، جو کچھ شاٹ پچ تھی، کو مڈ وکٹ کے باہر پہنچا دیا۔ جس پر سب کے چہرے متغیر ہونے لگے۔
تیسری گیند پر ہسی کریز سے باہر نکلے اور مڈ آن پر چھکا جڑ دیا۔
’یہ کیا ہورہا ہے؟‘ شاہد آفریدی چیخے۔ ’سنبھالو اسے۔ اس کو دیکھ کر بولنگ کرو۔‘
چوتھی گیند اجمل نے ہسی کی لائن سے باہر کی اور انہوں نے پھر بھی کور پوائنٹ پر چوکا مار دیا۔
میچ ہاتھ سے نکل گیا!
سکور لیول ہوگیا اور اگلی گیند پر ایک رن چاہیے تھا، لیکن ہسی نے پھر چھکا لگا کر گرین شرٹس کو فائنل کی دوڑ سے باہر کردیا اورجادوگر بولر سعید اجمل زمین پر بیٹھ کر آنسو بہانے لگے۔
جس پر ٹیم کو سب سے زیادہ بھروسہ تھا۔ آج پہلی بار وہ اپنے امتحان میں فیل ہوگیا۔
سعید اجمل شاید زندگی میں کبھی اتنے افسردہ نہیں ہوئے ہوں گے، جتنے اس سیمی فائنل میں ہوئے۔ وہ کہتے ہیں: ’میں ہسی کا وہ لاٹھی چارج کبھی نہیں بھول سکتا، جس نے میری ہر ورائٹی کا خون کردیا۔‘
ایک ایسا میچ جس نے کہیں افسردہ کیا تو کہیں جشن منایا، لیکن کرکٹ کی تاریخ میں یاد گار رہے گا۔