احمد خان 1983 کے آخر میں پاکستان کے علاقے منڈی بہاؤالدین سے 23 سال کی عمر میں سعودی عرب آئے تھے۔
انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اپنی زندگی کے اگلے 40 سال یہاں گزار دیں گے، خاص طور پر مکہ میں مسجد الحرام میں صفائی کرنے والے ایک کارکن کے طور پر۔
احمد نے شروع میں اپنے والدین سے وعدہ کیا تھا کہ وہ جلد از جلد گھر واپس لوٹ آئیں گے لیکن وہ مسجد الحرام کی خدمت میں انتہائی مصروف ہو گئے۔ اس دوران ان کے والدین دنیا سے گزر گئے۔
سال یوں ہی تیزی سے گزرتے گئے اور آج 61 سالہ احمد مسجد الحرام میں صفائی کے کام کے نگران ہیں۔
انہوں نے اس عرصے میں سعودی عرب میں پیش آئے کئی واقعات دیکھے جن میں سب سے اہم مسجد الحرام کا دوسرا اور تیسرا توسیعی اور کعبہ کی بحالی کا منصوبہ تھا۔
احمد نے عرب نیوز کو بتایا: ’چونکہ میں تقریباً 40 سال پہلے سعودی عرب آیا تھا، میں یہاں خود کو خاندان کے ساتھ سمجھتا تھا اور کبھی خود کو اجنبی محسوس نہیں کیا۔
’جب بھی میں کسی نئے شخص سے ملتا ہوں، تو وہ مجھے بتاتا ہے کہ میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ مسجد الحرام کی خدمت اور یہاں نماز ادا کرنے کے قابل ہوں۔
’میں ہمیشہ مقدس کعبہ کے قریب تھا اور یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے جو صرف خدا کے ساتھ خاص تعلق رکھنے والا شخص حاصل کرسکتا ہے۔ مجھے چار دہائیوں تک یہ کام کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ وہ مرحوم شاہ فہد بن عبدالعزیز کے دور میں سعودی عرب آئے تھے۔
’میں نے بیرونی صحنوں کی صفائی سے کام شروع کیا اور پھر تقریباً چار سال بعد مسجد الحرام کی توسیع ہوئی۔ میں اس بات کا عینی شاہد ہوں کہ کس طرح مسلمانوں کو اس منصوبے سے اپنی رسومات کو زیادہ آرام سے انجام دینے میں سہولت ملی۔‘
انہوں نے مرحوم شاہ فہد کے دور میں کعبہ کی بحالی بھی دیکھی اور اسے اپنی زندگی کا اہم اور خوبصورت مرحلہ قرار دیا۔
احمد کا خیال ہے کہ خدا نے انہیں بہت سے اہم واقعات دیکھنے کے لیے منتخب کیا، بشمول مرحوم شاہ عبداللہ کے دور میں مسجد الحرام کا تیسرا توسیعی مرحلہ۔
مسجد الحرام میں اپنے وقت کے علاوہ احمد نے ایک صفائی کمپنی کے ساتھ 11 سال تک کام کیا یہاں تک کہ وہ سعودی بن لادن گروپ میں چلے گئے۔
ان برسوں کے دوران وہ اپنی کارکردگی اور محنت کے لیے مشہور ہوئے۔
مسجد الحرام میں کام کے دوران انہیں پوری دنیا کے لوگوں کے گرم جوشی سے ملنے نے متاثر کیا۔
’ہم سب پیار کرنے والے بھائی ہیں۔ مسجد الحرام اور مسجد نبوی کو بہترین دکھانے کے لیے جنرل پریذیڈنسی کے تمام کارکنان نے ایک متحد ٹیم کے طور پر کام کیا۔‘
احمد کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ ان کا ایک بیٹا مسجد الحرام میں الیکٹریکل ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا ہے اور دوسرا پاکستان میں اپنی بہن کے ساتھ ہوتا ہے۔
انہوں نے انتقال کے بعد مکہ میں دفن ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ ان کا ماننا ہے کہ جو بھی ان دو مقدس مساجد کی خدمت میں رہتا ہے وہ کسی بھی طرح بور یا تنہا محسوس نہیں کر سکتا۔
’خوشی، محبت، ہم آہنگی، رواداری، رحم اور امن مسجد الحرام کے ہر کونے میں پایا جاتا ہے۔ یہاں دنیا بھر سے مسلمان خدا کی تعریف کرنے آتے ہیں۔‘