ماسکو میں افغانستان سے متعلق مذاکرات کے دوران روس اور وسطی ایشیا کے بااثر ممالک نے طالبان کے ساتھ مل کر خطے میں سکیورٹی کو فروغ دینے پر اتفاق کیا ہے۔
روس کی میزبانی میں بدھ کو ہونے والے اجلاس میں وسطی ایشیا کے ممالک نے افغانستان کے نئے رہنماؤں سے ’اعتدال پسند‘ پالیسیوں کو نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
افغانستان پر ہونے والے اس اجلاس میں طالبان، پاکستان، چین اور ایران سمیت دس ممالک کے عہدیداروں نے شرکت کی جبکہ امریکہ ان مذاکرات کا حصہ نہیں بنا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مذاکرات میں شریک نمائندوں کا کہنا تھا کہ علاقائی استحکام میں حصہ لینے کے لیے افغانستان میں سلامتی کو فروغ دینے پر اتفاق کیا ہے۔
اس موقع پر افغان طالبان کے نائب وزیراعظم مولوی عبدالسلام حنفی نے کہا کہ اگر نئی حکومت کو تسلیم اور سپورٹ نا کیا گیا تو قدرتی طور پر سکیورٹی میں خلل ڈالنے والے مزید مضبوط ہوں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’نئی حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ ہم کسی بھی گروپ کو افغانستان کی عوام، اس کے ہمسائے اور دیگر علاقائی ممالک کی سکیورٹی کو کمزور نہیں کرنے دیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مذاکرات میں طالبان سے ’اعتدال پسند‘ اور اندرونی، بیرونی پالیسیوں پر عمل، افغانستان کے پڑوسیوں کے لیے ’دوستانہ پالیسیز‘ اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔
شرکا نے داخلی پالیسی کے حوالے سے طالبان سے کہا ہے کہ وہ ’نسلی گرہوں، خواتین اور بچوں کے حقوق کا احترام کریں۔‘
روس کی میزبانی میں ہونے والے اس اجلاس کے آغاز سے قبل روس نے بدھ ہی کو کہا تھا کہ افغانستان کی مدد کرنے کے لیے بین الاقوامی امداد کی ضرورت ہے۔
وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کا کہنا تھا کہ ’ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کابل کے لیے انسانی بنیادوں پر موثر مالی امداد فراہم کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری کے وسائل کو حرکت میں لانے کا یہی وقت ہے۔‘
تاہم انہوں نے اجلاس کے حوالے سے یہ بھی کہا تھا کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے پر غور نہیں کیا جا رہا ہے۔