صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گیریلو علاقے کے قریب صرف 45 گھروں پر مشتمل چھوٹے سے گاؤں ٹھارو تھریچا کے 95 فیصد مکین موسم گرما کے ایک خاص دورانیے میں میٹھی بوری کے پیڑے بنا کر فروخت کرنے کے کام سے منسلک ہوجاتے ہیں۔
سال بھر اپنی روایتی کھیتی باڑی سے منسلک اس گاؤں کے کسان موسم گرما کے ایک خاص دورانیے پر اپنی نظریں جمائے رہتے ہیں۔
اور وہ خاص وقت ان کسانوں کو موسم گرما کے چلتے اپنی زرعی زمینوں میں دھان کا بیج بونے کے بعد شدید حبس کے موسم کے دوران فصل پک کر مکمل تیار ہونے سے قبل مل جاتا ہے۔ یہ وقت اس گاؤں کے تمام کسانوں کے لیے اضافی آمدنی کا باعث بنتا ہے۔
گاؤں ٹھارو تھریچا کے کسان سال میں ایک بار اس موسم کے دوران قریبی پانی کے تالابوں، مچھلی فارمز اور نہروں کے کناروں پر اگنے والے ’سرکنڈے‘ کے اوپری تنوں پر جمع ہونے والی پیلے رنگ کے ریشم نما نرم مادے کو اکٹھا کرنے میں جڑ جاتے ہیں۔
مقامی لوگ سندھی زبان میں سرکنڈے کے تنوں کو ’ڈیر پن‘ کہتے جبکہ اس پر قدرتی طور پر پیدا ہونے والے ریشم نما نرم مادے کو ’بوری‘ کہتے ہیں یہ پائؤڈر نما مادہ اتنا حساس ہوتا ہے کہ اسے گاؤں کے چھوٹے بچے تک تالابوں میں اتر کر اپنے ہاتھوں سے آرام سے کھینچ کر ٹین کے ڈبوں میں با آسانی جمع کر لیتے ہیں۔ اس کام کے لیے سب سے موضوں ترین وقت صبح سویرے کا ہے۔
ڈیر پن پر پیدا ہونے والا یہ پیلا مادہ تیز ہوا والی شدید گرمی جسے مقامی زبان میں ’جھولا‘ کہا جاتا ہے میں سوکھ کر روئے نما بن کر ہوا میں اڑ کر ضائع ہو جاتا ہے، اگر تیز بارش بھی ہو جائے تو بھی یہ پانی میں بہہ کر ختم ہوجاتا ہے۔
گرمی کے دوران صرف ایک وقت ہے جب اسے حاصل کیا سکتا ہے اور وہ وقت تب آتا جب دھان کی فصل میں پانی چھوڑا گیا ہو۔
گاؤں ٹھارو تھریچا کے بچے اور نوجوان اس مخصوص وقت کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ بوری اکٹھی کرنے کی کوششوں میں جٹ جاتے ہیں۔
پہلے پہل صبح سویرے تالابوں سے بوری کو ڈیر پن سے کھینچ کر اتارا جاتا ہے۔ پھر مقامی لوگ اکٹھی کردہ بوری سے نمی کو ختم کرنے اور اسے مکمل طور پر خشک کرنے کے لیے ہاتھوں سے اپنے گھروں کی چھتوں پر تپتی دھوپ میں پھیلا دیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگلے مرحلے میں خشک بوری کو کپڑے کی باریک پرتوں پر چھانا جاتا ہے۔ جس سے بوری کا پاؤڈر اور اس میں شامل روئے الگ ہوجاتے ہیں۔ چھاننے کے عمل میں کوتاہی ساری محنت کو ضائع کرنے کا باعث بھی بنتی ہے۔ بوری سے روئؤں کو مکمل طور پر الگ کرنا ایک محنت طلب کام ہے۔ اس سے کچھ لوگ اسے متعدد بار چھانتے پیں۔
بوری کے شفاف زرد پاوڈر کے ہلکے سفید روئؤں سے مکمل طور پر الگ کیے جائے کے بعد اس پاؤڈر کو کپڑے کے ٹکڑوں میں لپیٹ کر گول پیڑے بنا لیے جاتے ہیں اور ان پیڑوں کو کچی مٹی کے مٹکے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
جس کے بعد ایک الگ برتن میں پانی ڈال کر آگ پر رکھ دیا جاتا ہے، جب کہ بوری کے مٹکے کو اس برتن کے اوپر رکھ کر درمیان کے فاصلے کو مٹی سے بند کردیا جاتا ہے۔ تاکہ پانی کی بھاپ باہر نہ نکلے۔ پھر ایک سے ڈیڈھ گھنٹہ پکنے کے بعد میٹھی بوری تیار ہوجاتی ہے۔
لاڑکانہ میں تیار کی جانے والی بوری انفرادیت اور خاصیت یہ ہے کہ اس میں کچھ بھی نہیں ملایا جاتا۔ یہ قدرتی طور پر اتنی میٹھی ہوتی ہے کہ اسے قدرتی میوہ کہا جاتا ہے۔
گاؤں کے مکین شہر کے بیوپاریوں کو یہ بوری تین سے چار روپے فی کلو میں فروخت کرتے ہیں اور یہ سلسلہ روزانہ تب تک جاری رہتا ہے جب تک ڈیر پن سے بوری یا پھر متعلقہ موسم ختم نہ ہوجائے۔
لاڑکانہ کی بوری شہر کے تمام خشک میوہ جات کی دوکانوں کی زینت بنتی ہے اور مقامی دوکاندار اس بوری کو چھ سو سے آٹھ سو روپے فی کلو تک فروخت کرتے ہیں۔ جب کہ لاڑکانہ کی بوری کراچی سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں بڑی تعداد میں فروخت کے لیے برآمد بھی کی جاتی ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق اس قدرتی میوہ کو حاملہ خواتین کھانا پسند کرتی ہیں۔ جب کہ یہ چند پیٹ کے امراض سے نجات کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے۔
مقامی لوگ اسے بطور تحفہ شہر سے باہر اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں کو بھی بھیجتے ہیں۔
لاڑکانہ کی میٹھی بوری اس لیے بھی منفرد ہے کہ اس کی مٹھاس لاجواب مانی جاتی ہے۔ لوگ اسے بطور مٹھائی خوشی کے موقع اور تہواروں پر منہ میٹھا کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔
لیکن پاکستان کے بیشتر لوگ اس میوہ کے لذیذ ذائقے سے تاحال واقف نہیں۔