صدر جو بائیڈن نے اتوار کو کہا ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کے خلاف ایرانی کارروائیوں کا ڈرون حملوں سمیت جواب دے گا۔
انڈپینڈنٹ فارسی کے مطابق عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر ایران سے منسوب ڈرون حملوں کے ردعمل میں بائیڈن حکومت نے جو محدود کارروائیاں کی ہیں ان میں مشرقی شام میں غیر مہلک محدود فضائی حملے شامل تھے۔
اس سے قبل امریکہ کے سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے ایرانی ڈرون حملوں کے خطرے پر ملتا جلتا بیان دیا تھا۔
ایران کی مبینہ آشیر باد پر عسکریت پسند گروپ عراق اور شام میں امریکی مفادات کو ڈرون حملوں سے بار ہا نشانہ بنا چکے ہیں۔
ایسا ہی ایک حملہ جمعے کو جنوبی شام میں ایک فوجی اڈے پر ہوا تھا، جس پر بائیڈن انتظامیہ جوابی کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہے۔
بعض تجزیہ کار ایران کے ڈرون پروگرام کو اس کے ایٹمی پروگرام سے زیادہ خطرہ سمجھتے ہیں۔ امریکہ کے محکمہ خزانہ نے اس حوالے سے ایران پر نئی پابندیاں عائد کی ہیں۔
صدر بائیڈن ڈرون حملوں پر ایران کو دھمکا چکے ہیں لیکن وہ فوجی آپشن سے زیادہ معاشی پابندیوں اور سفارت کاری کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جی 20 سمٹ میں شرکت کے لیے اتوار کو روم میں موجود صدر بائیڈن نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے ’خراب ‘ فیصلے کے نتائج بھگت رہا ہے۔
ادھر صدر بائیڈن کی مقبولیت خود افغانستان سے امریکی فوج کے تباہ کن انخلا کی وجہ سے پچھلے 10 مہینوں میں انتہائی نچلی سطح پر گری ہے۔
سابق صدر ٹرمپ سمجھتے تھے کہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ ’امریکی تاریخ کا بدترین معاہدہ‘ تھا۔ وہ اس معاہدے سے مئی 2009 میں نکل آئے تھے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اتوار کو کہا کہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس کے ساتھ ایران کو جوہری معاہدے میں واپس لانے کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہے لیکن ساتھ ہی کہا کہ یہ واضح نہیں کہ آیا تہران بامعنی طور پر مذاکرات میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے تیار ہے یا نہیں۔
اتوار کو سی این این کے ساتھ انٹرویو میں بلنکن کا یہ تبصرہ ایک دن بعد آیا جب امریکہ، جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے ایران پر زور دیا کہ وہ 2015 کے جوہری معاہدے پر دوبارہ عمل شروع کرے تاکہ ’خطرناک کشیدگی سے بچا جا سکے۔‘
بلنکن کا مزید کہنا تھا کہ یہ واقعی اس بات پر منحصر ہے کہ آیا ایران ایسا کرنے میں سنجیدہ ہے یا نہیں۔