دنیا کے کئی ممالک میں کرونا وائرس کے نئے ویرینٹ ’اومیکرون‘ کے کیس سامنے آتے جا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں متعدد ملکوں کی حکومتوں نے اپنی سرحدیں بند کر دی ہیں جبکہ سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ وائرس کی نئی قسم اس کی دوسری اقسام کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے یا نہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق دو دن پہلے جنوبی افریقہ کے سائنس دانوں نے اومیکرون کو شناخت کیا تھا اور ابھی تک اس کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں، جیسے کہ آیا کرونا (کورونا) وائرس کی نئی قسم زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے، زیادہ شدید نوعیت کی بیماری کا سبب بن سکتی ہے یا اس میں موجودہ حفاظتی ویکسینز کو غیر مؤثر بنانے کی صلاحیت زیادہ ہے یا نہیں۔ لیکن بہت سے ملکوں نے جلد بازی میں اقدامات کیے ہیں جس سے یہ ظاہر ہے کہ اب تک 50 لاکھ جانیں لینے والی وبا سے ممالک اب بھی پریشان ہیں۔
اسرائیل نے اتوار کو غیر ملکیوں کے ملک میں داخلے پر پابندی عائد کر دی اور مراکش نے کہا ہے کہ وہ پیر سے بیرون ملک سے آنے والی تمام پروازیں دو ہفتے کے لیے معطل کر رہا ہے۔ پاکستان پہلے ہی جنوبی افریقہ سمیت چھ ممالک کی جانب سے آنے والی پروازوں پر پابندی لگا چکا ہے۔
ہانگ کانگ سے یورپ تک سائنس دان پہلے ہی اومیکرون کی موجودگی کی تصدیق کر چکے ہیں۔ نیدرلینڈز میں اتوار کو اومیکرون کے 13 مصدقہ کیس رپورٹ کیے گئے۔ ڈچ حکام کا کہنا ہے کہ یہ مسافر جنوبی افریقہ سے آئے۔ کینیڈا اور آسٹریلیا میں بھی دو دو کیس سامنے آ چکے ہیں، جبکہ برطانیہ میں تین۔
آسٹریلوی حکام کے مطابق جنوبی افریقہ سے سڈنی پہنچنے والے دو مسافر پہلے افراد ہیں جن میں نئے ویرینٹ کی تصدیق ہوئی۔ افریقہ کے نو ملکوں سے آسٹریلیا آنے والے مسافروں پر ہوٹل میں قرنطینہ کی پابندی لگا دی گئی ہے۔ جرمنی کی دو ریاستوں میں بھی تین کیسز رپورٹ کیے گئے ہیں۔ یہ مسافر اختتام ہفتہ پر جرمنی واپس پہنچے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اومیکرون کے دو کیسز کے بعد برطانیہ میں ہفتے کو فیس ماسک لگانے اور دوسرے ملکوں سے آنے والے مسافروں کے حوالے سے قواعد کو سخت کر دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق متعدد ممالک پہلے ہی براعظم افریقہ کے جنوبی ممالک پر سفری پابندی عائد کر چکے ہیں جن میں قطر، امریکہ، برطانیہ، انڈونیشیا، سعودی عرب، کویت اور نیدرلینڈز شامل ہیں۔ انگولہ پہلا افریقی ملک ہے جس نے تمام علاقائی ممالک سے آنے والی پروازیں روک دی ہیں۔ ان ملکوں میں موزنبیق، نمیبیا اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اتوار کو دنیا بھر کے ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ اومیکرون کے حوالے سے خدشات کے پیش نظر جنوبی افریقہ پر سفری پابندی عائد کرنے سے گریز کریں۔
افریقہ کے لیے ڈبلیو ایچ او کی افریقہ کے علاقائی ڈائریکٹر میتشی دیسو موئتی نے ممالک پر زور دیا کہ سفری پابندیوں کا اطلاق سائنس اور صحت کے عالمی قواعد کی روشنی میں کریں۔
ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’سفری پابندیوں سے کووڈ 19 کے پھیلاؤ میں معمولی کمی ہوتی ہے لیکن زندگی اور روزگار پر اس کے اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں۔‘
جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے بھی سفری پابندیوں کو ’مکمل طور پر غیرمنصفانہ‘ قرار دیا ہے۔ اتوار کو اپنی تقریر میں ان کا کہنا تھا کہ سائنس سفری پابندی کا نہیں کہتی اور نہ ہی وائرس ویرینٹ کا پھیلاؤ روکنے میں مؤثر ثابت ہوگی۔
انہوں نے کہا: ’سفری پابندیوں سے صرف یہ ہو گا کہ متاثرہ ملکوں کی معیشتوں کو مزید نقصان پہنچے گا اور ان کی جوابی صلاحیت اور وبا کے اثرات سے نکلنے کی صلاحیت متاثر ہو گی۔‘
انہوں نے کہا: ’جن ممالک نے ہم اور ہمارے ہمسائیہ مملک پر سفری پابندیاں عائد کی ہیں ہم ان پر زور دیتے ہیں کہ اس فیصلے کو فوری طور پر واپس لیا جائے اور پابندیوں کو ختم کریں اس سے پہلے کہ ہماری معیشتوں اور شہریوں کے روزگار کو مزید مقصان پہچنے۔‘
اے ایف پی کے مطابق جنوبی افریقہ کے سائنس دانوں نے کہا ہے کہ انہوں نے گذشتہ ہفتے نئی قسم کے کرونا وائرس میں 10 تبدیلیاں شناخت کی ہیں، جب کہ اس کے مقابلے میں گذشتہ ویرینٹس یعنی بیٹا اور ڈیلٹا میں تین تبدیلیاں ہوئی تھیں۔ وائرس کی ان اقسام کی وجہ سے بحالی کا عمل متاثر متاثر ہوا اور کروڑوں افراد کو لاک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا۔
روم میں معروف ہسپتال بمبینو گیسو کے سائنس دانوں نے اومیکرون ویرینٹ کی پہلی تھری ڈی ’تصویر‘ تیار کی ہے اور تصدیق کی ہے کہ اس میں ڈیلٹا ویرینٹ کے مقابلے میں زیادہ تبدیلیاں ہوئی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نیا وائرس زیادہ خطرناک ہے۔