گہرے ہوتے ہوئے معاشی بحران نے برسوں کی جنگ سے تباہ ایک افغان گاؤں کے کھنڈرات میں، جاوید کے لیے اس بات کی امید بہت کم چھوڑی ہے کہ وہ اپنے گھر کی تعمیر نو کرسکیں گے۔
غزنی کے شہر میں داخل ہونے والی مرکزی سڑک کے ساتھ واقع آرزو نامی گاؤں برسوں تک میدان جنگ بنا ہوا تھا۔ طالبان باغیوں نے اس چھوٹے سے گاؤں اور اس کے آس پاس کی پانچ فوجی چوکیوں پر سرکاری فوجوں کا مقابلہ کیا، وہ اکثر عام شہریوں کے گھروں کو چوکیوں کے طور پر استعمال کرتے تھے۔
ایک سال سے زائد مسلسل لڑائی کے بعد، آخری باشندے بھی جون میں اس گاؤں سے فرار ہو گئے۔ دو ماہ بعد، افغانستان طالبان کے زیر تسلط آ گیا اور عالمی برادری کی جانب سے امداد پر انحصار کرنے والے ملک افغانستان کے لیے فنڈز بڑے پیمانے پر منجمد ہونے کے ساتھ معاشی بحران پیدا ہو گیا۔
اس سے بھی بڑھ کر ایک تباہ کن خشک سالی نے یہاں خوراک کی سنگین قلت اور انسانی تباہی کے خطرات کو جنم دیا ہے۔
آرزو جیسے دیہی علاقوں کو دو دہائیوں پر محیط اس تنازعے کا نقصان اٹھانا پڑا جس نے طالبان باغیوں کو امریکی، نیٹو اور افغان فورسز کا سامنا کرتے ہوئے دیکھا، اور جس دوران دونوں طرف سے شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔
گاؤں کے پرانے خاندان آہستہ آہستہ آرزو میں اپنے مکانات کے ملبے کی طرف لوٹ رہے ہیں اور اسے دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
آرزو گاؤں کی 55 سالہ لیلوما نے افغان فورسز اور باغیوں کے درمیان فائرنگ میں اپنی بیٹی کھوئی ہے۔ ان کے شوہر سر میں گولی لگنے کے بعد بچ گئے، لیکن اب کام نہیں کر سکتے۔ پہلی بار جب ان کا گھر لڑائی میں تباہ ہوا تو انہوں نے اسے دوبارہ بنا لیا، لیکن اس بار ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔
65 سالہ رفیع اللہ، جو مقامی لڑکیوں کے سکول میں استاد تھے، انہوں نے اپنی بیٹی کھوئی جن کی موت نامعلوم سمت سے آنے والی گولی لگنے سے ہوئی، وہ اپنی شادی سے دو ہفتے قبل ہلاک ہو گئی تھی۔
سکول میں دوبارہ کلاسز کا آغاز ہوگیا ہے، اور رفیع اللہ اپنے طالب علموں کے ساتھ مل کر دوبارہ خوش ہونے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن انہیں اپنی بیٹی کھو جانے کا غم ہے۔ سکول کا نیلا گیٹ گولیوں کے درجنوں سوراخوں سے چھلنی ہے، کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی ہیں، اور دیواریں توپ کے گولوں سے داغدار ہیں۔
2020 کے موسم بہار اور گاؤں پر قبضے کے درمیان، 40 شہری مارے گئے تھے۔ مزید اموات سے بچنے کے لیے، دیہاتی وہ اسلحہ جو ابھی نہیں پھٹا، اکٹھا کرتے ہیں اور اسے خالی جگہ میں چھپا دیتے ہیں۔
گاؤں کے بزرگ عبدالباری آرزوئی کہتے ہیں’ہم بچوں کی حفاظت کے لیے ایسا کرتے ہیں۔‘
آرزوئی کا کہنا ہے کہ 800 خاندانوں میں سے تقریباً 100 جو آرزو کے مرکز میں کچے مکانوں میں رہتے تھے واپس نہیں آئے ہیں۔ گاؤں والوں کو یہ بھی خدشہ ہے کہ طالبان کی طرف سے بارودی سرنگیں صاف کرنے کی حالیہ کوششوں کے باوجود بارودی سرنگیں ان کھیتوں میں دبی ہوئی ہیں جن پر وہ کبھی انحصار کرتے تھے۔
بہت سے آدمی جو کھیتوں میں کاشت کاری کرتے تھے کہیں اور کام تلاش کرنے کے لیے چلے گئے ہیں۔ مویشی بھی نہیں رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نقیب احمد کہتے ہیں،’ہم اب (فصل) کاشت نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنے مویشی استعمال کر سکتے ہیں، وہ اب ختم ہو چکے ہیں۔ ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں رہا اور ان کے لیے پانی بھی نہیں ہے۔‘
موسم سرما کے لیے کوئی ذخائر نہ ہونے کے باعث، کچھ لوگ غزنی کے قریبی تعمیراتی مقامات یا پاکستان اور ایران میں دیہاڑی تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بہت سے لوگ صرف حکومتی مدد یا بین الاقوامی امداد کی امید لگائے رکھتے ہیں۔
احمد کہتے ہیں، ’ہمارے پاس زندہ رہنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ بہت سے خاندانوں پر قرض ہے اور وہ انہیں واپس نہیں کر سکتے۔‘
31 سالہ جاوید نے اے ایف پی کو بتایا کہ:’دن رات فائرنگ ہوتی تھی اور ہمارا گھر درمیان میں تھا۔‘
انہوں نے اس سرنگ کی طرف اشارہ کیا، جسے طالبان نے اس کے گھر تباہ شدہ گھر میں فوجی چوکیوں میں سے ایک پر حملہ کرنے کے لیے کھودا تھا۔ جاوید اور ان کے اہلخانہ اب بھی دوسرے گاؤں میں رشتہ داروں کے پاس پناہ لیے ہوئے ہیں، جب تک کہ انہیں اپنا گھر دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے کافی رقم نہ مل جائے۔
ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا، وہ اپنی چھوٹی دکان کو بحال کرنے کے لیے پہلے ہی 160,000 افغانی ($1,680) ادھار لے چکے ہیں۔ جاوید کہتے ہیں ’ہمیں این جی اوز اور حکومت سے مدد کی ضرورت ہے، ورنہ میرا خاندان واپس نہیں آسکتا۔‘