پاکستان میں حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں کرونا (کورونا) وائرس کی نئی قسم اومیکرون کا پہلا مشتبہ کیس رپورٹ ہوا ہے۔
کراچی سے جمعرات کو جاری ایک بیان میں وزیر صحت سندھ عذرا پیچوہو نے کہا کہ کراچی میں اومیکرون کے پہلے مشتبہ کیس میں متاثرہ مریضہ کی عمر 57 سال ہے اور انہیں کرونا ویکسین نہیں لگی ہوئی تھی۔
وزیر صحت کے مطابق مریضہ سے حاصل کیے گئے نمونوں کی جینیاتی سٹڈی جاری ہے، جس کے نتائج آنے میں دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’اومیکرون تیزی سے پھیلتا ہے، جبکہ اس میں اموات کا تناسب کم ہے۔ جنوبی افریقہ سے آنے والی رپورٹس کے مطابق وائرس کی اس قسم سے زیادہ اموات رپورٹ نہیں ہوئیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وائرس کی کسی بھی قسم سے بچنے کا بہترین طریقہ ویکسین لگوانا ہے۔
دوسری جانب محکمہ صحت کے ترجمان عاطف وگھیو نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا اور مریضہ نجی ہسپتال کے زیر علاج اپنے گھر میں قرنطینہ کر رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’متاثرہ خاتون کو کسی مقامی کیس کے ساتھ رابطے کے باعث اومیکرون ہوا ہے کیونکہ خاتون نے حال ہی میں کہیں بھی سفر نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اومیکرون وائرس پہلے سے ہماری کمیونٹی میں موجود ہے۔‘
کراچی کے ضلع شرقی کے ضلعی ہیلتھ افسر کی جانب سے جاری ہونے والی ایک دستاویز کے مطابق مشتبہ کیس آٹھ دسمبر کی شام کو ضلع شرقی کی رہائشی خاتون میں رپورٹ ہوا۔
اس دستاویز کے مطابق کیس رپورٹ ہونے کے فورا بعد ہی کراچی کے ضلع وسطی کی ریپڈ ریسپانس ٹیم کو متحرک کرکے ضلعے میں کانٹیکٹ ٹریسنگ، ٹیسٹنگ، ویکسینیشن، قرنطینہ اور دیگر روک تھام کے اقدامات کے لیے انتظامات کو تیز کردیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے مطابق وائرس سے متاثرہ خاتون کو ویکسین نہیں لگی تھی، اور ان کے خاندان کے دیگر تین افراد میں بھی کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک 61 شخص کو ویکیسین کی دونوں خوراکیں لگ چکی ہیں، جبکہ ایک 80 سالہ شخص اور 55 سالہ شخص کو ویکسین نہیں لگی ہے۔
کرونا وائرس کی نئی قسم یا ویرینٹ اومیکرون نومبر کے آخر میں براعظم افریقہ کے جنوبی ممالک میں پہلی بار سامنے آیا تھا، جس کے بعد کئی ممالک نے پھر سے سفری پابندیاں نافذ کر دی تھیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ابتدائی شواہد سے ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ ڈیلٹا ویرینٹ سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے، مگر اس سے بیماری کی شدت اتنی زیادہ نہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے ایمرجنسیز کے سربراہ مائیکل رائن نے کہا ہے کہ نئی قسم کے بارے میں موجود ڈیٹا سے یہی معلوم ہو رہا ہے کہ یہ ’ڈیلٹا ویرینٹ کے مقابلے میں زیادہ جلدی پھیل رہا ہے۔‘
اومیکرون کیا ہے؟
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق اومیکرون کو تشویش کے اعتبار سے انتہائی تیزی سے پھیلنے والے وائرس کی اس کیٹگری میں رکھا گیا ہے جس میں ڈیلٹا ویرینٹ شامل ہے۔
ڈیلٹا ویرینٹ کے یورپ اور امریکہ کے کچھ حصوں میں بڑی تعداد میں مریض موجود ہیں اور اموات جاری ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اومیکرون کے حقیقی خطرات ابھی تک نہیں سمجھے گئے لیکن ابتدائی شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ وائرس کے تیزی سے پھیلنے والی اقسام کے مقابلے میں اس کا دوبارہ مرض میں مبتلا کر دینے کا خطرہ زیادہ ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ وہ لوگ جو کووڈ 19 میں مبتلا ہونے کے بعد صحت یاب ہو گئے ہیں وائرس کی اس نئی قسم کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ جاننے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں کہ موجودہ ویکسینز اس کے خلاف کم مؤثر ہیں۔
اومی کرون کی علامات کیا ہیں؟
افریقہ کی ایک ڈاکٹر جو کرونا کے نئے ویریئنٹ کے پھیلاؤ کے متعلق سب سے پہلے خبردار کرنے والوں میں سے ہیں، نے کہا ہے کہ اومیکرون کی علامات بہت ہی معمولی ہیں۔
ساؤتھ ایفریقن میڈیکل ایسوسی ایشن کی سربراہ ڈاکٹر اینجلیک کوٹزی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنے کلینک میں سات ایسے مریض دیکھے جن کی علامات ڈیلٹا سے مختلف تھیں۔
انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’جو چیز انہیں ہسپتال تک لے آئی وہ انتہائی تھکاوٹ تھی، مریضوں کے پٹھوں میں ہلکا درد، خشک کھانسی اور گلے میں خراش تھی۔‘
ڈاکٹر کوٹزی نے کہا کہ جب سات مریضوں میں مختلف علامات ظاہر ہوئیں تو انہوں نے 18 نومبر کو محکمہ صحت کے حکام کو ایک ’کلینیکل تصویر جو ڈیلٹا سے مطابقت نہیں رکھتی‘ کے بارے میں آگاہ کیا۔
انہوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’اس مرحلے پر علامات کا تعلق عام وائرل انفیکشن سے تھا اور چونکہ ہم نے گذشتہ آٹھ سے 10 ہفتوں سے کووڈ 19 نہیں دیکھا تھا، اس لیے ہم نے ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
’ہم کرونا کی تیسری لہر کے دوران ڈیلٹا کے بہت سے مریض دیکھ چکے تھے اور یہ کلینیکل تصویر ان سے نہیں ملتی تھی۔ ان میں سے زیادہ تر میں بہت ہلکی علامات تھیں اور کسی نے بھی اب تک مریضوں کو سرجری کے لیے داخل نہیں کیا تھا۔‘
ڈاکٹر کوٹزی نے وضاحت کی کہ ’ہم مریض کا علاج گھر پر کر سکتے تھے۔‘