اسلام آباد میں علی الصبح جب پارہ نقطہ انجماد پر تھا اور ہری گھاس نے جمی ہوئی اوس کی وجہ سے سفید چادر اوڑھ رکھی تھی، اس وقت میڈیا کو اکٹھا ہونے کا وقت دیا گیا تھا۔
پہلی منزل اسلام آباد کے علاقے آبپارہ کے قریب واقع سپورٹس کمپلیس تھا جہاں پر میڈیا کے ارکان نے گاڑیاں پارک کیں۔ وہاں دفتر خارجہ کے پروٹوکول عملے نے سب کے سکیورٹی پاسز چیک کیے اور بعد میں بسوں میں بٹھا کر پارلیمنٹ کی جانب روانہ کر دیا گیا۔
وہاں ایک سکیورٹی چیک اپ کا دوسرا راونڈ منتظر تھا۔ یہاں بھی بیگ کی تلاشی کے بعد اس پر سکیورٹی چیک کا ٹیگ لگایا گیا۔ پارلیمنٹ کے باہر سکیورٹی اہلکاروں کے تربیت یافتہ کتے بھی موجود تھے، جس سے تاثر مل رہا تھا کہ سکیورٹی بہت سخت ہے۔
ہم سب کو پارلیمنٹ کے گیٹ نمبر ایک کے باہر اتارا گیا۔ میڈیا نمائندوں نے سوچا شاید اب مزید کسی پل صراط سے نہیں گزرنا پڑے گا لیکن یہاں دوبارہ بیگ چیک کیے گئے اور کہا گیا کہ سرخ قالین سے گزر کر بذریعہ لفٹ سیدھا تیسری منزل پر واقع پریس گیلری چلے جائیں۔
سکیورٹی اور پروٹوکول پر مامور اہلکاروں نے ہلکی پھلکی گپ شپ میں بتایا کہ گذشتہ تین روز سے ان کی 20 گھنٹوں کی ڈیوٹی چل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’پاکستانی طالبان کی حالیہ دھمکیوں کے تناظر میں سکیورٹی فول پروف بنانے پر دباؤ بہت زیادہ تھا، بس اللہ کرے خیر خیریت سے ایونٹ ہو جائے۔‘
اسلامی تعاون تنظیم کے وزرا خارجہ کونسل کے 17ویں غیر معمولی اجلاس میں سکیورٹی مراحل سے گزرنے کے بعد شرکا اور صحافی عمارت کے اندر پہنچے۔ سکیورٹی چیک کے بعد تحریک انصاف کے چند اراکین اسمبلی غیرملکی مہمانوں کے ساتھ ہال میں تصویریں بناتے رہے۔
پارلیمنٹ کا ایوان، جہاں معمول میں قومی اسمبلی کے اجلاس ہوتے ہیں، اُسے او آئی سی اجلاس کے لیےموزوں قرار دیتے ہوئے مختص کیا گیا تھا۔ حکومتی جماعت کے اراکین اسمبلی ملیکہ بخاری، زرتاج گُل، رمیش کمار، سینیٹر شہزاد وسیم اور دیگر بھی اسمبلی ہال کے اندر مختلف وزرا سے ملتے رہے۔ پارلیمانی سیکرٹری عندلیب عباس خلیجی ممالک کے وفود سے ملاقات میں مصروف رہیں۔
وزیر خارجہ ساڑھے 11 بجے ہال میں تشریف لائے جبکہ وزیراعظم 11 بج کر 42 منٹ پر ہال میں آئے، جس کے بعد اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا۔
وزیراعظم عمران خان، سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان ، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور اوآئی سی سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم روسٹرم کے ساتھ نشتوں پر براجمان تھے۔ وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی نے اپنی تقریر سے اجلاس کی شروعات کی۔
جب وزیر خارجہ شاہ محمود تقریر کر رہے تھے تو اس دوران نگران وزیر خارجہ امیر خان متقی کی سربراہی میں طالبان وفد قدرے تاخیر سے ہال میں داخل ہوا۔
وزیر خارجہ کے بعد سعودی وزیر خارجہ، او آئی سی سیکرٹری جنرل، ترکی کے وزیر خارجہ، اردن کے وزیر خارجہ، نائجر کے وزیر خارجہ، اسلامی ترقیاتی بینک کے صدر اور ان کے بعد وزیراعظم عمران خان نے تقریر کی۔
وزیراعظم عمران نے اپنی تقریر میں کہا کہ جب کسی ملک کے بینک منجمد ہو جائیں تو اُن کی معیشت کھڑی نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ قدرتی بحران نہیں ہے بلکہ بنایا گیا ہے، پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے، مزید تاخیر ہونا افغان عوام کے لیے ٹھیک نہیں۔
او آئی سی اجلاس میں وزیراعظم نے افغانستان کے مسئلے پر بات کرنے کے بعد کشمیر، فلسطین اور اسلاموفوبیا پر بھی بات کی۔ کابینہ اراکین ہال سے منسلک نشستوں پر بیٹھے تقاریر سنتے رہے۔
سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ یہ بے شک ایک غیر معمولی اجلاس ہے جو افغان عوام کی تکالیف کے حل کے لیے بلایا گیا ہے، او آئی سی کی چھتری تلے ہم مل کرمشترکہ اقدام کر سکتے ہیں۔
اردن کے وزیر خارجہ نے خطاب میں کہا کہ آج وقت ہے کہ طے کریں کہ افغانستان دوبارہ دہشت گردوں کےہاتھ جائے گا یا وہاں کے عوم کو عزت ملے گی۔
ترک وزیر خارجہ میلولت چاوش اولو کا او آئی سی ایشیا، عرب اور افریقہ گروپس کی جانب سے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے افغان بھاٰئی بہنوں کا بہترمستقبل ہونا چاہیے۔ اس کا فیصلہ یہاں پر ہونا ہے۔
اسلامی ترقیاتی بینک کے چیئرمین نے خطاب میں کہا کہ افغانستان کی 76 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے یہ ضروری ہے کہ افغانستان میں نوجوانوں اور خواتین کی مدد کی جائے۔
وزیر اعظم کی تیرہ منٹ کی تقریر کے بعد اجلاس میں دس منٹ وقفے کا اعلان کیا گیا۔ اس کے بعد اِن کیمرہ سیشن کا اعلان کیا گیا اور میڈیا سے جانے کی درخواست کی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وقفے کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود کے ساتھ ملاقات ہوئی جس میں دو طرفہ تعلقات ،افغانستان سمیت خطے کی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر خارجہ نے مشکل وقت میں پاکستان کی معاونت پر سعودی وزیر خارجہ کا شکریہ ادا کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یکے بعد دیگرے دو وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاسوں کی میزبانی، مسلم امہ کیلئے پاکستان کی سنجیدہ سوچ کی ترجمانی کرتی ہے۔
دوران ملاقات سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود نے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس کے شاندار انتظامات کو سراہتے ہوئے، پرخلوص میزبانی پر وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا شکریہ ادا کیا۔
واضح رہے کہ میڈیا کو اسمبلی ہال سے مختص گیلری میں بٹھایا گیا۔ وہاں ملکی و غیر ملکی میڈیا کی کافی تعداد موجود تھی۔ معمول میں اسمبلی ہال کے اندر موبائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن او آئی سی اجلاس کے موقع پر یہ پابندی نہیں لگائی گئی جس کی وجہ سے صحافیوں کی تعداد اس خاص موقعے کافائدہ اُٹھاتے ہوئے ان لمحات کو کیمرے کی آنکھ میں مخفوظ کیا۔ کسی نے کہا کہ 41 برس بعد یہ اجلاس پاکستان میں ہو رہا ہے اس لیے ضروری ہے کہ تصاویر بنائی جائیں۔