اسلام آباد ہائی کورٹ کا شیشہ کیفے کے حوالے سے حکم نامہ سامنے آتے ہی اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ نے شیشہ کیفے کے خلاف کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔
ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) اسلام آباد حمزہ شفقات نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اسلام آباد میں کوئی مخصوص شیشہ کیفے نہیں ہے بلکہ چند ریستوران ہیں، جو گاہکوں کو خفیہ طور پر شیشہ مہیا کرتے ہیں۔‘
حمزہ شفقات نے بتایا کہ ’ہمیں جب بھی کسی ریستوران سے متعلق شیشہ بیچنے کی شکایت موصول ہوتی ہے تو ہم کارروائی کرتے ہیں، ریستوران بند کرتے ہیں اور جرمانہ کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ہر ہفتے ضلعی انتظامیہ مختلف ریستورانوں کا معائنہ کرتی ہے اور اچانک چھاپے بھی مارے جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’گذشتہ تین ماہ میں سو سے زائد معائنے کیے گئے ہیں بلکہ ہفتے کی شب پولیس نے کئی کیفیز پر چھاپہ مارا اور گرفتاریاں بھی کی ہیں۔‘
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے تحریری حکم نامے میں اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ سے وفاقی دارالحکومت میں شیشہ کیفیز کے حوالے سے نو فروری تک رپورٹ طلب کی ہے۔
ایک شہری نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ اسلام آباد کے سیکٹر ای-11 میں شیشہ بارز پر پابندی لگائی جائے۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ کسی بھی ریستوران میں شیشہ پینے کی تمباکو ایکٹ کے تحت اجازت نہیں ہے، اس لیے انتظامیہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ ایسی سرگرمیوں کو روکنے کے اقدامات کرے۔
شیشہ کیفیز کے خلاف کارروائیاں
گذشتہ ہفتے ضلعی انتظامیہ کے دفتر میں اس معاملے پر اجلاس بھی ہوا، جس کے بعد جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے شيشہ کيفيز کے معاملے پر اسلام آباد انتظاميہ کو رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا ہے، لہذا اب انتظاميہ کے ساتھ ساتھ پوليس اور اینٹی نارکوٹکس فورس (اے اين ايف) بھی متحرک ہے۔
ہفتے کی شب بھی 40 کے قریب شیشہ مہیا کرنے والے کیفیز پر پولیس نے چھاپے مارے اور شیشہ اور فلیورز قبضے میں لے کر ذمہ داران کو حراست میں لے لیا۔
ایک کیفے کے مالک کے مطابق پولیس نےکیفے میں موجود ویٹرز کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ اسلام آباد کے سیکٹر ای-11 میں واقع ایک کیفے کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جس میں ایک خاتون ڈانس کر رہی تھیں اور ان پر نوٹ نچھاور کیے جا رہے تھے۔
ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مذکورہ کیفے کوبھاری جرمانے کے ساتھ سیل کر دیا گیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب معلومات کے مطابق اب تمام کیفیز میں شیشہ نہیں دیا جا رہا۔ ایک خفیہ آپریشن کے دوران جب کیفے میں جا کر ویٹر سے شیشے کا پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’پولیس چھاپے مار رہی ہے اس لیے فی الحال شیشہ نہیں مل سکتا۔ پولیس پہلے ہی تمام حقے اور فلیورز اٹھا کر ساتھ لے گئی ہے۔‘
شیشہ کیفے کا ماحول کیسا ہوتا ہے؟
شیشے کی فروخت کی نیت سے بنائے جانے والے ریستورانوں کا ماحول بھی کچھ مختلف ہوتا ہے، جہاں کیفے میں داخل ہوتے ہی ڈسکو لائٹس اور دھواں آپ کا استقبال کرتا ہے۔
معمول کی لائٹس آپ کو نظر نہیں آئیں گی بلکہ اندھیرا محسوس ہوگا۔ کچھ لمحوں بعد جب بینائی ماحول سے مطابقت پیدا کرے گی تو ریستوران کے اندر دھیمی روشنی میں ماحول نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔
ایک چیز جو آپ فوراً نوٹ کرتے ہیں وہ وہاں پر تیز اور بے ہنگم موسیقی ہوگی جس کے باعث کان پڑی آواز سنائی نہیں دے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بہت سے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے گروپ دھواں اُڑاتے نظر آئیں گے۔ یہ وہ مناظر ہیں جو کسی بھی ایسے ریستوران کے ہوں گے، جہاں پر کھانا برائے نام لیکن اصل مقصد شیشہ کی فراہمی یا فروخت ہوگا۔
شیشہ کیفے جانے والی ایک خاتون فضا (فرضی نام) نے بتایا کہ وہ تو ریلیکس ہونے کے لیے شیشہ پیتی ہیں اور وہ نہیں سمجھتی کہ اس میں کوئی صحت کا نقصان ہے۔
اُن سے جب پوچھا گیا کہ وہ گھر پر شیشہ کیوں نہیں رکھ لیتیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’گھر پہ اجازت نہیں ہے، اس لیے شیشہ نہیں رکھا جا سکتا۔ مزید یہ کہ کیفے میں دوستوں کے ساتھ گپ شپ بھی ہو جاتی ہے۔‘
کیا شیشہ پینے پر واقعی پابندی ہے؟
اسلام آباد میں ایک کیفے کے مالک نے، جہاں شیشہ بھی مہیا کیا جاتا ہے، نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ کس قانون میں لکھا ہے کہ شیشہ پینا غیر قانونی ہے؟‘
انہوں نے کہا کہ ’تمباکو ایکٹ کے تحت شیشہ پر پابندی لگائی گئی ہے تو پھر سگریٹ پینے والے ہر شخص پر اس قانون کا اطلاق ہوتا ہے، ان کو بھی گرفتار کریں، جب وہ عوامی مقام پر سگریٹ پیئیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ شراب نوشی پر قانون بنا ہوا ہے تو شیشے پر کیوں نہیں؟ شراب نوشی تو زیادہ نقصان دہ ہے لیکن شیشے میں فلیور کے سوا کوئی ایسی چیز موجود نہیں جو نشہ آور ہو۔
انہوں نے کہا کہ ’غیر اسلامی ممالک کے ساتھ ساتھ تمام اسلامی ملکوں کے کیفیز یا ریستورانوں میں شیشہ پینے کا رواج عام ہے اور کسی بھی ملک میں شیشہ پینے سے کوئی بیماری تاحال سامنے نہیں آئی۔‘
اس معاملے پر جب ڈی سی اسلام آباد سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’تمباکو ایکٹ کے تحت ہی شیشہ پر پابندی ہے، جیسے کم عمر افراد کو عوامی جگہ پر سگریٹ پینے کی اجازت نہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’جہاں تک پابندی کا تعلق ہے تو یہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا پورے پاکستان کے لیے حکم ہے اور ہمارا کام عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرانا ہے۔‘
شیشہ کیا ہے اور اس پر پاکستان میں پابندی کب لگی؟
دستیاب معلومات کے مطابق شیشہ درحقیقت ذائقہ دار تمباکو ہے، جو حقے کے ذریعے پیا جاتا ہے۔ پرانے ادوار میں حقہ ہوتا تھا لیکن جیسے جیسے زمانہ جدید ہوا یہ مختلف ذائقوں میں ملنا شروع ہو گیا۔ یہ رجحان مشرق وسطیٰ سے پاکستان میں آیا ہے۔
شیشہ بنانے کے لیے خوشبودار فلیورز کو تمباکو اور نکوٹین کے ساتھ ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں 2008 سے 2012 تک شیشہ کھلے عام میسر تھا جہاں نوجوان نسل کا بے پناہ رش دیکھا جاتا تھا لیکن فروری 2012 میں پشاور میں پابندی لگی اور اکتوبر 2012 میں لاہور ہائی کورٹ نے شیشہ اور حقے پر پابندی عائد کر دی، جس کے بعد انتظامیہ نے کارروائیاں شروع کر دیں۔
سندھ حکومت نے بھی جون 2012 میں شیشے روک تھام شروع کر دی تھی جبکہ نومبر 2015 میں سپریم کورٹ نے پورے پاکستان میں شیشے کی درآمد اور فروخت پر پابندی عائد کر دی تھی۔
یاد رہے کہ 2019 میں کیفے مالکان نے حکومت سے شیشے پر پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن اُن کی شنوائی نہ ہوئی۔