بھارت نے بظاہر جمعے سے شروع ہونے والے بیجنگ سرمائی اولمپکس کے حوالے سے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں اور اس کا صرف ایک کھلاڑی ان کھیلوں میں حصہ لے رہا ہے۔
دہلی حکومت کے کسی اعلیٰ سطح کے رہنما نے مغربی ممالک کی جانب سے اس ایونٹ کے سفارتی بائیکاٹ میں شامل ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
یہ اس لیے بھی زیادہ حیرت کی بات ہے کیوں کہ چین نے اولمپک مشعل برداری کی تقریب کے لیے اپنے ایک ایسے فوجی کا انتخاب کیا تھا جنہوں نے سرحدی کشیدگی کے نتیجے میں بھارت کے ساتھ دہائیوں بعد ہونے والی خونی جھڑپ میں حصہ لیا تھا۔
یہ وادی گلوان میں چین اور بھارت کے سرحدی گشت کرنے والے فوجیوں کے درمیان ہاتھا پائی کی بدترین لڑائی تھی۔ اس متنازع سرحد (ایل اے سی) پر دونوں ممالک کے فوجی عام طور پر آتشیں اسلحے کا استعمال نہیں کرتے تاکہ تنازع کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔
تقریباً دو سال قبل ہونے والی اس جھڑپ میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے جب کہ متعدد رپورٹس کے مطابق چینی فوجیوں کی ہلاکتوں کی غیر مصدقہ تعداد چار سے لے کر 40 تک ہے۔
بھارت نے اس واقعے کی شدت کو کم بتانے کی کوشش کی جیسا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بعد میں اس بات کی تردید کی کہ چین نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کو پار کر کے بھارتی علاقہ حاصل کیا ہے۔
دونوں ممالک ہمالیہ خطے کی متنازع سرحد کے بڑے حصوں پر اپنا اپنا دعویٰ کرتے ہیں۔
مودی نے ٹیلیویژن پر خطاب میں قوم کو یقین دلایا کہ ’کسی نے بھی بھارتی سرحد کے اندر دخل اندازی نہیں کی اور نہ ہی کوئی (فی الحال) دخل اندازی کر رہا ہے اور نہ ہی ہماری کوئی پوسٹ کسی کے قبضے میں گئی ہے۔‘
لیکن مودی نے ساتھ ہی بھارتی فوجیوں کے جانی نقصان پر ’منہ توڑ جواب‘ دینے کا عہد بھی دہرایا۔
15 جون 2020 کی اس جھڑپ کے بعد سے دونوں فریق سرحدی تناؤ میں الجھے ہوئے ہیں اور عمومی پرامن سٹیٹس پر واپسی کے لیے دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطحی فوجی مذاکرات کے ایک درجن سے زیادہ دور ہو چکے ہیں لیکن ان میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
اس درمیانی عرصے میں چین خاموش نہیں بیٹھا ہے۔ 3 نومبر 2021 میں پینٹاگون کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ چین نے تبت کے خود مختار علاقے اور بھارت کے اروناچل پردیش کے درمیان متنازع علاقے میں 2020 کے دوران ایک سو گھروں پر مشتمل ایک بڑا گاؤں بسایا ہے۔
متنازع خطے میں اپنے اپنے زیر کنٹرول حصوں سے زیادہ علاقوں کا دعویٰ کرنے والے دونوں فریقوں کی جانب سے ایل اے سی کے قریب بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو عام طور پر اشتعال انگیزی اور اس زمین پر اپنے اپنے دعوے کو مضبوط کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
بھارتی نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی کے مطابق سیٹلائٹ تصاویر میں چین کی جانب سے تعمیر کی گئی 60 عمارتوں پر مشتمل ایک اور نئی بستی دکھائی دے رہی ہے جو ایل اے سی سے تقریباً چھ کلومیٹر کے اندر ان علاقوں میں بنائی گئی ہے جس پر بھارت اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔
زمین پر ہونے والی اس پیش رفت کے ساتھ ساتھ چین سرحد پر اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے قانون سازی جیسے اقدامات کرنے میں بھی مصروف ہے۔
چین میں گذشتہ ماہ نافذ ہونے والا نیا زمینی سرحدی قانون شہریوں کو پابند بناتا ہے کہ وہ سرحدی انفراسٹرکچر، جس میں نئے بنائے گئے گاؤں بھی شامل ہیں، کی حفاظت اور دفاع میں مدد کریں تاکہ چین کی ’خودمختاری اور علاقائی سالمیت‘ کا دفاع کیا جا سکے۔
بھارت اور چین کی سرحد کے حوالے سے مبصرین کو جس چیز سے سب سے پریشانی لاحق ہے وہ یہ ہے کہ یہ تعمیرات اروناچل پردیش کے آس پاس کے علاقوں میں بنائی گئی ہیں۔ بھارت کی اس مشرقی ریاست کو بیجنگ طویل عرصے سے چین کے صوبے جنوبی تبت کا حصہ قرار دیتا ہے۔
بین الاقوامی سلامتی کے پروفیسر اور خطے میں جغرافیائی سیاست پر نو کتابوں کے مصنف برہما چیلانی دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’یہ گاؤں ان علاقوں میں ہیں جو ملک کے سرکاری نقشوں میں بھارتی سرحدوں کے اندر واقع ہیں۔ لیکن بھارتی نقشوں میں وہ علاقے دکھائے جاتے ہیں جن پر بھارت کا کنٹرول ختم ہو چکا ہے۔ یہ چین اور پاکستان دونوں کے حوالے سے درست ہے۔‘
سٹریٹیجی کے حوالے سے بھارت کے اہم تجزیہ کاروں میں سے ایک پروین ساہنی کا کہنا ہے کہ چین کا پیغام سادہ ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ ’اروناچل پردیش پر دوبارہ دعویٰ کریں گے‘ اور یہ کہ نیا قانون متنازع علاقوں میں مزید شہری بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کا قانونی جواز فراہم کرتا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ چین متنازع سرحدی علاقے کو اپنے دفاع کی اپنی پہلی لائن بنانے کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ پہلے سے ہی ’متنازع علاقے یا بھارتی سرزمین پر‘ نئے مستقل ڈھانچے تعمیر کر رہا ہے۔
ان کے مطابق بھارت اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتا۔
ساہنی کا کہنا ہے کہ ’یہ تعمیرات سرحد پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کے نئے معمول کا حصہ بن گئی ہیں اور یہ کہ چینی ملیشیا یہاں سے کہیں نہیں جا رہی۔ درحقیقت انہوں نے ڈوکلام (بھارت، چین اور بھوٹان کے درمیان متنازع علاقے) میں بھی تعمیرات کی ہیں اور بھوٹان کو دھمکایا ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین پہلے سے ہی زمینی سرحدی قانون کے احکامات پر عمل کر رہا ہے جس میں دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ ریاستوں سے تمام سرحدوں پر واضح باؤنڈری مارک قائم کرنا، سرحدی قصبوں کی تعمیر اور ان کے درمیان رابطوں کو بہتر بنانا شامل ہے۔
یہ قانون چینی سرحدوں کی حفاظت اور دراندازوں کے خلاف ہتھیاروں کے استعمال کے لیے مزید فوج اور پولیس کی تعیناتی تفویض کرتا ہے۔
اگرچہ یہ قوانین ان تمام 14 ممالک پر لاگو ہوں گے جن کی چین کے ساتھ زمینی سرحدیں ملتی ہیں لیکن اس کے وقت اور دائرہ کار نے بھارت کے لیے خاص طور پر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
چین نے باضابطہ طور پر اپنے 14 میں سے 12 پڑوسیوں کے ساتھ علاقائی تنازعات کا حل نکال لیا ہے اور اب صرف بھارت اور بھوٹان کے ہی چین کے ساتھ کشیدہ سرحدی اختلافات ہیں۔
دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں چین کے امور کے پروفیسر سری کانت کونڈاپلی کا کہنا ہے کہ چین یکطرفہ طور پر اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ سرحدوں کی حد بندی کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس قانون کا نفاذ جنوری سے ہوا ہے لیکن چین تبت کے سرحدی علاقوں میں 628 ژیاوکانگ تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ژیاوکانگ چینی زبان میں خوشحال گاؤں کو کہتے ہیں۔ گذشتہ سال تک چین نے پہلے ہی 628 میں سے 604 گاؤں تعمیر کر لیے تھے۔ اور ان 604 میں سے 200 گاؤں بھارت کے ساتھ ایل اے سی پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ چین نے یہ گاؤں بھوٹان اور نیپال کی سرحدوں کے ساتھ بھی بنائے ہیں۔‘
دہلی سے تعلق رکھنے والے خارجہ پالیسی کے ماہر سوارن سنگھ کا کہنا ہے کہ ہمالیہ کی سرحد پر پرسکون اور زیادہ پرامن ماضی کی طرف لوٹنا حقیقت میں اب ممکن نہیں ہوگا کیوں کہ اس کے آس پاس اتنی عمارتیں بن چکی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ فارورڈ سرحدوں پر ضرورت سے زیادہ تعیناتیاں اور گشتی دستوں کے درمیان ٹکراؤ ناگزیر ہو جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں کم گشت والی سرحد مستقل طور پر فعال سرحد میں تبدیل ہو گئی ہے جہاں زیادہ فوجی، زیادہ بھاری عسکری سازوسامان اور نیم مستقل فوجی تنصیبات کو اب تیزی سے منتقل کیا جا سکتا ہے کیونکہ دونوں طرف اب مواصلات کا بہتر انفراسٹرکچر موجود ہے۔
انہوں نے کہا: ’اگرچہ آپ چینیوں کو جان بوجھ کر چیزوں کو نہ چھیڑنے کے شک کا فائدہ دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بنیادی ڈھانچے میں بہتری آئی ہے۔ فورسز کی نقل و حرکت اور بھاری عسکری سازوسامان کو تیزی سے آگے لانے کی صلاحیت اور فوجیوں کی بہت بڑی تعداد میں تعیناتی سے ان خطوں میں مزید باقاعدہ تصادم اور آمنے سامنے آنے کے خطرات بڑھے ہیں۔‘
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ان سب باتوں سے دنیا کی دو سب سے بڑی اور طاقتور مسلح افواج کے درمیان تناؤ، تھکاوٹ اور غصہ پیدا کرتا ہے اور یہ غصہ مزید بڑھ سکتا ہے جس سے زیادہ اور بار بار جھڑپیں ہو سکتی ہیں۔
سنگھ کا کہنا ہے کہ چین کی جانب سے اپنی سرحدوں پر بنائے جانے والے ماڈل ولیجز کا ایک اور مقصد یہاں کے نسلی گروہوں کی فوج میں بھرتی اور ان کی بالواسطہ حمایت حاصل کرنا ہے جو زیادہ تر ہان چینیوں پر مشتمل پی ایل اے (پیپلز لبریشن آرمی) کی نسبت ان علاقوں سے زیادہ موافیت رکھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’نیا قانون ماڈل یا خوشحال گاؤں بنانے پر زور دیتا ہے جو آپس میں اور بیرونی طور پر ریل، سڑک، بجلی کی لائنوں اور انٹرنیٹ رابطوں سے جڑے ہوئے ہوں، ان کے پاس کافی مقدار میں خوراک اور پانی کی دستیابی کو یقینی بنایا گیا ہو تاکہ وہ پیپلز لبریشن آرمی، یا پیپلز آرمڈ پولیس کے لیے ایک ریڑھ کی ہڈی کی طرح ثابت ہوں کیونکہ انہیں طویل عرصے تک سرحدی علاقوں میں تعینات کیا جائے گا۔‘
بیجنگ میں مقیم سیاسی تجزیہ کار اینار ٹینگن نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ موجودہ تعطل چین کے توسیع پسندانہ نظریے کی وجہ سے کم اور دہلی اور بیجنگ کے درمیان اعتماد میں کمی کی وجہ سے زیادہ پیدا ہوا ہے۔ یہ بداعتمادی 2019 کے وسط میں مودی حکومت کی جانب سے متنازع خطے جموں و کشمیر کی نیم خود مختاری کو منسوخ کرنے کے بعد شروع ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا: ’بیجنگ نے بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کے الحاق اور سرحد پر ایک عسکری اہمیت کی ایک سڑک کی مسلسل بہتری کو زمین پر قبضے کی تیاریوں کے طور پر دیکھا اور بھارت کو خبردار کرنے کے ایک طریقے سے جواب دیا کہ اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘
انہوں نے بتایا: ’بعد میں ادلے کے بدلے کی پالیسی اور دونوں طرف سے فوجی حکمت عملی کو سفارتی اہداف سے الگ کرنے میں دشواری اس تعطل کا نتیجہ ثابت ہوئی۔‘
ٹینگن کا کہنا ہے کہ آگے بڑھتے ہوئے وہ تناؤ میں کمی کی توقع کرتے ہیں کیوں کہ ان کے نزدیک طویل مدت تک دشمنی اور طاقتور پڑوسیوں کے درمیان مہنگے فوجی تصادم سے کسی بھی فریق کو فائدہ نہیں ہوگا۔
بھارت یقینی طور پر محاذ آرائی نہیں چاہتا اور سرحد کے ساتھ چینی تعمیرات پر اس کا ردعمل بڑی حد تک خاموشی پر مشتمل ہے جب کہ فوج اور حکومت کی طرف سے ملے جلے بیانات سامنے آ رہے ہیں۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے نومبر میں کہا تھا کہ حکومت نے پینٹاگون کی رپورٹ کا نوٹس لیا ہے اور اس میں بیان کی گئیں’غیر قانونی‘ چینی تعمیرات کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے جو ان علاقوں میں بنائی جن پر بھارت اپنے علاقے کے طور پر دعویٰ کرتا ہے۔
ترجمان نے کہا: ’چین نے گذشتہ کئی سالوں میں سرحدی علاقوں کے ساتھ ساتھ تعمیراتی سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں جن میں وہ علاقے بھی شامل ہیں جن پر اس نے دہائیوں سے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ بھارت نے نہ تو اپنی سرزمین پر اس طرح کے غیر قانونی قبضے کو قبول کیا ہے اور نہ ہی اس نے چین کے بلاجواز دعووں کو تسلیم کیا ہے۔ حکومت نے چین کے ساتھ اس معاملے پر ’سخت احتجاج‘ کیا ہے۔‘
اُس وقت کے بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت، جو حال ہی میں ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے، نے ایک متضاد بیان دیا جس میں کہا گیا کہ ’گاؤں ایل اے سی کے پار چین نے اپنے علاقے میں بنائے گئے ہیں اور یہ کہ چین نے ہمارے خیال میں ایل اے سی پر کہیں بھی دراندازی نہیں کی۔‘
پچھلے 20 مہینوں میں ایک ایسا موقع تھا جب بھارت نے اس کشیدگی میں اس وقت پہل کی جب بھارتی فوج نے کیلاش رینج میں سٹریٹجک اہمیت کی حامل چوٹیوں پر قبضہ کرنے کے لیے پینگونگ جھیل کے جنوبی کنارے کے ساتھ پیش قدمی کرکے چین کو حیران کردیا تھا۔
ماہرین نے کہا کہ اس اقدام سے بھارت کو چین کے مالڈو بیس کے اوپر ایک غالب پوزیشن حاصل ہو گئی جب کہ بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس طرح اس نے چینی فوج کی یہاں پیش قدمی کو روک دیا۔
سنگھ کہتے ہیں کہ اس پیشرفت نے پہلی بار بھارت کو کچھ فائدہ پہنچایا اور اس کے نتیجے میں چین کے ساتھ بات چیت میں ایک پیش رفت ہوئی جس نے پینگونگ جھیل کے شمالی کنارے سے اپنی افواج کو اس شرط پر واپس بلا لیا کہ بھارت ان چوٹیوں سے پیچھے ہٹ جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد سے بات چیت رک گئی ہے کیونکہ چین کو مزید سمجھوتہ کرنے کی کوئی ضرورت نظر نہیں آتی۔
سنگھ نے مزید کہا: ’چین نے ہمیں فوری طور پر ان پہاڑی پوزیشنز سے دستبردار کرا دیا لیکن وہ (پینگونگ جھیل) سے آگے اپنی پوزیشن سے پیچھے نہیں ہٹے کیونکہ بظاہر ایسا کوئی سودے بازی کا فائدہ نہیں تھا جو بھارت نے انہیں پیش کیا ہو سوائے اپنی فوجی تعیناتیوں کو برقرار رکھنے کے۔‘
ساہنی کا کہنا ہے کہ فی الحال فوری پیش رفت کا واحد راستہ یہ ہے کہ بھارت چینی شرائط پر راضی ہو کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ چین ایک بڑی فوجی طاقت ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اجتماعی بین الاقوامی سفارت کاری کا ایک حربہ تلاش کر سکتا ہے جیسا کہ دیگر ممالک تائیوان، بحیرہ جنوبی چین اور ہانگ کانگ جیسے مسائل پر چین کو چیلنج کرنے میں کھل کر بول رہے ہیں جب کہ بھارت بڑی حد تک اس سے دور رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مثال کے طور پر ہانگ کانگ پر اقوام متحدہ میں اپنے سب سے واضح تبصرے میں بھارت نے براہ راست چین کا نام نہیں لیا اور صرف اتنا کہا کہ دہلی ’حالیہ پیش رفتوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔‘
بھارت آخری لمحے تک بیجنگ اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ سے باہر رہا۔ اس لیے جمعرات کو یہ ایک اہم واقعہ تھا جب دہلی میں وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ گیمز کی افتتاحی یا اختتامی تقریبات میں کوئی بھی بھارتی نمائندہ موجود نہیں ہوگا۔ بھارتی وزارت خارجہ نے چین کی جانب سے فوجی مشعل بردار کے انتخاب پر ’اولمپکس کو سیاسی رنگ دینے‘ کے فیصلے کو افسوس ناک قرار دیا۔
پروفیسر اور سٹریٹجک تجزیہ کار ہیپیمون جیکب کا کہنا ہے کہ بھارت کو ’ان مسائل کے بارے میں تھوڑا زیادہ فعال‘ ہونا چاہئے بجائے اس کے کہ وہ اپنے پرانے موقف پر قائم رہے اور ’ون چائینہ‘ اصول پر بیجنگ کی حمایت کرے۔
انہوں نے کہا: ’میں نہیں سمجھتا کہ چین کے ساتھ بھارت کی موجودہ پالیسی چینی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی ہے اور دہلی کو اپنی سفارت کاری میں حقیقی جدت اختیار کرنا ہوگی اور تائیوان، ہانگ کانگ اور تبت پر واضح موقف اختیار کرنا ہوگا جس سے چینیوں کو نقصان پہنچے گا۔‘
جیکب کا کہنا ہے کہ بھارت ’یقینی طور پر‘ چین کے ساتھ تعلقات بگاڑنا نہیں چاہتا لیکن بین الاقوامی سطح پر اپنے اچھے پہلو پر قائم رہنے کی کوشش زیادہ مدت تک بھارت کے لیے مددگار نہیں ہو سکتی۔
ان کے بقول: ’اگر آپ چینیوں کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں گے تو وہ آپ پر غلبہ پاتے رہیں گے۔‘
© The Independent