ایران نے بدھ کو ایک نئے میزائل کا تجربہ کیا ہے جس کی مبینہ رینج خطے میں امریکی اڈوں اور اپنے روایتی دشمن اسرائیل کے اندر موجود اہداف تک بتائی گئی ہے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ایران کے سرکاری ٹی وی نے خبر دی ہے کہ میزائل کی رینج 1450 کلومیٹر یعنی 900 میل ہے۔
اس میزائل کو ’خیبر شکن‘ کا نام دیا گیا ہے، جو اسلام کے ابتدائی دنوں میں مسلمان جنگجوؤں کے زیر قبضہ یہودی قلعے کا حوالہ ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایران کے سرکاری میڈیا کے حوالے سے رپورٹ کیا: ’یہ طویل فاصلے تک مار کرنے والا میزائل مقامی طور پر ایرانی پاسداران انقلاب نے تیار کیا ہے۔ اس کی درستگی بہت زیادہ ہے۔ یہ ٹھوس ایندھن سے چلتا ہے اور میزائل شیلڈز سسٹم میں گھسنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘
تاہم ان معلومات کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
اسرائیل کا ایران سے قریب ترین مقام تقریباً 1000 کلومیٹر یا 620 میل دور ہے۔
روئٹرز کے مطابق ایران، جس کا مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا میزائل پروگرام ہے، کا کہنا ہے کہ اس کے بیلسٹک میزائلوں کی رینج 2,000 کلومیٹر (1,200 میل) تک ہے اور وہ خطے میں اپنے روایتی دشمن اسرائیل اور امریکی اڈوں تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ایران اپنے میزائل پروگرام کو امریکہ، اسرائیل اور دیگر مخالفین کے خلاف ایک اہم ڈھال سمجھتا ہے اور اس نے اپنے بیلسٹک میزائل کے کام کو روکنے کے مغربی مطالبات کو مسترد کر دیا ہے۔
ایرانی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ ایران کی مسلح افواج کے چیف آف سٹاف میجر جنرل محمد باقری نے آئی آر جی سی کے ایک اڈے پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ایران اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام کو بڑھاتا رہے گا۔‘
اس سے قبل جنوری میں ایران نے مصنوعی سیاروں کو لانچ کرنے کے لیے تیار کردہ ٹھوس ایندھن والے راکٹ کے انجن کا تجربہ کیا تھا۔
جوہری معاہدہ
یہ پیش رفت یک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ویانا میں عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیل، جسے ایران تسلیم نہیں کرتا، طویل عرصے سے دھمکیاں دے رہا ہے کہ اگر ویانا میں ہونے والے مذاکرات تہران کے جوہری کام کو روکنے میں ناکام رہے تو وہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کرے گا۔
تاہم ایران کا کہنا ہے کہ اس کے جوہری عزائم پرامن ہیں۔
2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے سے روکنے کے لیے جوہری معاہدے سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے تہران پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
جس کے جواب میں ایک سال بعد ایران نے اس معاہدے کی جوہری حدود کی بتدریج خلاف ورزی کرتے ہوئے، افزودہ یورینیم کے ذخائر کی تعمیر نو اور پیداوار کو تیز کرنے کے لیے جدید سنٹری فیوجز نصب کر دیئے تھے۔
صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کی جگہ لینے کے بعد تہران اور واشنگٹن کے درمیان معاہدے کی بحالی کے لیے بالواسطہ بات چیت شروع کی تھی لیکن گذشتہ برس اپریل کے بعد سے بات چیت کے آٹھ دور مکمل ہوجانے کے باوجود ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان اختلافات برقرار ہیں۔
تہران اور واشنگٹن نے پیش رفت نہ ہونے کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرایا ہے۔
ایران کے اعلیٰ سکیورٹی عہدےدارعلی شمخانی نے بدھ کے روز ٹویٹ کیا کہ ’امریکی حکومت کی طرف سے آنے والی آوازیں ظاہر کرتی ہیں کہ ویانا مذاکرات کو آگے بڑھانے میں سیاسی فیصلے کرنے کے لیے اس ملک میں کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔‘