اس وقت روس کی ایک لاکھ 30 ہزار فوج یوکرین کی سرحد پر موجود ہے جب کہ 30 ہزار روسی فوجی بیلاروس میں ہیں۔ اس صورت حال پیش نظر ان خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ روس یوکرین پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے۔
یہ بحران روس کی طرف سے کریمیا کے الحاق اور مشرقی یوکرین کے علاقے ڈونبس میں لڑائی شروع ہونے کے آٹھ سال بعد سامنے آیا ہے جہاں تب سے نچلی سطح پر ہونے والی لڑائی میں 14 ہزار سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ یوکرین اور روس نواز علیحدگی پسندوں کے درمیان یہ لڑائی اب تک جاری ہے۔
اگرچہ مغربی ملکوں کو امید ہے کہ وہ کشیدگی کم کروانے اور مشرقی یورپ میں خونریز جنگ کو ٹالنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن کریملن اور نیٹو اتحادیوں کے درمیان سفارتی بات چیت کا اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور اس وقت جو حالات ہیں ان سے واضح نہیں کہ آگے کیا ہوگا۔
برطانیہ کی مسلح افواج کے وزیر جیمز ہیپی نے خبردار کیا ہے کہ گذشتہ 70 سالوں میں کسی بھی مرحلے کے مقابلے میں جنگ کے زیادہ قریب ہے۔
شمالی بحراوقیانوس کے فوجی اتحاد نے کہا ہے کہ وہ پولینڈ اور لتھوانیا جیسے پڑوسی مشرقی ملکوں میں تعیناتی کے لیے اضافی بحری جہاز اور لڑاکا طیارے بھیج رہا ہے جو لڑائی شروع ہونے کی صورت میں پناہ گزینوں کی آمد کی تیاری کر رہے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ نے یوکرین سے سفارت کاروں کے خاندانوں کو احتیاطی تدبیر کے طور پر واپس بلا لیا ہے۔ بعض فضائی کمپنیوں نے کیف کے لیے پروازیں بند کر دی ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کشیدگی کم کروانے کے لیے حالیہ ہفتوں میں یورپ کا دورہ کر چکے ہیں۔ انہوں نے روسی ہم منصب، یوکرین کے صدر ولادی میرزیلنسکی اور دوسرے یورپی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں روس پر زور دیا کہ وہ سرد جنگ کی دشمنیوں کی واپسی سے بچیں۔ برطانوی وزیر خارجہ لزٹرس اور فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں بھی اسی مقصد کے لیے ماسکو کا دورہ کر چکے ہیں۔ جرمن چانسلراولاف شولز نے پہلے زیلنسکی اور پھر ولادی میر پوتن سے تازہ ترین ملاقاتیں کی ہیں۔
امریکی صدر جوبائیڈن کو بھی ایسے ہی کرنے کی دعوت دی گئی ہے لیکن کریملن نے اس بات کا امکان مسترد کر دیا ہے۔ کریملن کا کہنا ہے کہ امریکہ۔روس تعلقات اس وقت’بہت نچلے درجے‘پر ہیں۔ بائیڈن اور شولز حال ہی میں واشنگٹن میں ملاقات کر چکے ہیں تاکہ یوکرین کے تنازعے کے حوالے سے کسی حکمت عملی پر بات کی جا سکے۔ دونوں رہنماؤں نے روس کو دھمکی دی ہے کہ یوکرین پر حملے کی صورت میں اس کی نورڈ سٹریم 2 گیس پائپ لائن جو بحیرہ بالٹک کے نیچے سے گزر کر جرمنی جا رہی ہے اسے بند کر دیا جائے گا۔
اگر پوتن آگے بڑھے اور انہوں نے’بڑی غلطی‘کی تو مغربی اتحادیوں کے حوالے سے توقع ہو گی کہ وہ دوسرے اقدامات کریں گے جن میں یوکرین کو مزید فوجی وسائل کی فراہمی سے لے کر روس پر کئی طرح کی سخت معاشی پابندیاں لگانا شامل ہے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس بات کا امکان نہیں کہ دھمکیاں کریملن کو روک پائیں گی جس نے روسی معیشت کو’پابندیوں سے محفوظ‘بنانے کے لیے کام کیا ہے۔
پوتن کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ موجودہ صورت حال کو نیٹو کا دائرہ یوکرین جیسے ملکوں تک بڑھانے کے عمل کو درست کرنے کی سمت میں پہلا قدم سمجھتے ہیں۔ یہ ملک 1989 میں سوویت یونین کے خاتمے سے پہلے ماضی میں اس کی حکمرانی میں تھے۔ رائے شماری سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوکرین کے شہریوں کی بڑی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ ان کا ملک فوجی اتحاد کا رکن بنے۔ ماسکو چاہتا ہے کہ مغرب وعدہ کرے کہ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ نیٹو نے یہ وعدہ واضح طور پر مسترد کر دیا ہے۔
گذشتہ سال موسم گرما میں شائع ہونے والے پانچ ہزار الفاظ کے مضمون میں پوتن نے یوکرین کو اپنے خیالات سے آگاہ کر دیا تھا۔ سٹاک ہوم فری ورلڈ فورم میں سینیئر فیلو اینڈرس اسلنڈ کی رائے میں’روسی اور یوکرینی شہریوں کا تاریخی اتحاد‘کے عنوان سے والے اس مضمون میں بس یہ کمی تھی کہ اعلان جنگ نہیں کیا گیا تھا۔ روسی صدر نے یہ دعویٰ دہرایا کہ روسی اور یوکرینی شہری‘ایک لوگ‘ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب یوکرین سے یو ایس ایس آر سے آزادی حاصل کی تو ان کے وطن کو’لوٹا‘گیا۔
مضمون میں ایک جگہ پوتن نے کیف کو مزید کھلی دھمکیاں دیں۔ انہوں نے لکھا: ’مجھے یقین ہے کہ یوکرین کی حقیقی خود مختاری صرف روس کے ساتھ شراکت داری سے ہی ممکن ہے۔‘چند ماہ بعد روسی صدر نے ہزاروں فوجی یوکرین کی سرحد پر بھیج دیے۔
برطانیہ اور امریکہ نے یوکرین کو حال ہی میں فوجی مدد فراہم کی ہے۔ برطانیہ کی جانب سے یوکرین کو پرواز کرنے والے ٹینک شکن ہتھیار دیے گئے جب کہ پولینڈ میں ساڑھے تین سو فوجی تعینات کیے گئے۔ ایک ہزار فوجیوں کو چوکس رکھا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم ان اقدامات سے روسی حملے کے خطرے کا سامنا کرنے کی صورت میں کیف کو زیادہ فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ مستقبل میں ممکنہ طور پر جنگ کرنے والے روس اور یوکرین کے درمیان فوجی طاقت کی وسیع خلیج موجود ہے۔ یوکرین کی فوج ڈھائی لاکھ سے کم ہے اور وہ اس میں مزید ایک لاکھ 30 ہزار کا اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ روسی فوجی تعداد تقریباً 10 لاکھ ہے۔ وہ کہیں زیادہ جدید اور بڑی تعداد میں ہتھیاروں کا مالک ہے۔
روس اور یوکرین کی فوجی طاقت کے فرق کے بارے میں بات کرتے ہوئے برطانیہ میں یوکرین کے سفیر وادم پرستائیکو نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ ان کا ملک نیٹو کا حصہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: ’ہم اس خاندان کا حصہ نہیں ہیں اور ہمیں یورپ میں سب سے بڑی فوج کا اپنے طور پر سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کئی بار انکار کر چکے ہیں کہ روس یوکرین پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے۔ انہوں نے اپنے مؤقف کا یہ کہہ کر دفاع کیا دراصل کشیدگی کا الزام یوکرین کو مغربی ہتھیاروں کی فراہمی، یوکرین کی فوجی مشقوں اور نیٹو کے طیاروں کی سر پر پروازوں کو جاتا ہے۔
لیکن شائد حملے سے قبل کی کارروائی کے طور پر جنوری میں یوکرینی حکومت کی ایک درجن سے زیادہ ویب سائٹس ہیک کر لی گئی تھیں۔ اس موقعے پر یوکرین کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس کارروائی کا کسی کو الزام دینا بہت قبل از وقت ہو گا۔ تاہم وزارت نے اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ’یوکرین پر روسی سائبر حملوں کا طویل ریکارڈ موجود ہے۔‘
ہیکروں نے ہیک کی گئی ویب سائٹس پر خبردار کرنے والا پیغام تحریر کیا کہ’یوکرین! آپ کا تمام نجی ڈیٹا عام نیٹ ورک پر اپلوڈ کر دیا گیا ہے۔ کمپیوٹر پر موجود تمام ڈیٹا تباہ کر دیا گیا ہے۔ اسے واپس حاصل کرنا ناممکن ہے۔‘پیغام میں مزید کہا گیا کہ’آپ کے بارے میں تمام معلومات عام ہو گئی ہیں۔ ڈریں اور اس سے زیادہ برے کی توقع رکھیں۔ یہ آپ کا ماضی، حال اور مستقبل ہے۔‘
© The Independent