تین سال قبل کینیڈا کے کوہ پیما نے ایک وڈیو شیئر کی جس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ ایک پہاڑ کے نزدیک ایک کیمپ کے پاس کچرا پھیلا پڑا ہے۔ کینیڈا کے کوہ پیما نے اس گندگی کا الزام پولینڈ سے تعلق رکھنے والے کوہ پیماؤں کی ٹیم پر لگایا تھا۔
ان کا اندازہ تھا کہ یہ گندگی پولش ٹیم کی ہی ہے کیوں کہ اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کچرے پر پولش زبان میں کچھ لکھا ہوا ہے اور پولش زبان میں کتابوں کے سرورق ہیں اور دیگر اشیا بھی۔
اس الزام کے بعد پولش ٹیم کے سربراہ نے معذرت کی اور بیان میں کہا کہ انہوں نے سارا کچرا مختلف موسموں کو برداشت کرنے والے تھیلوں میں ڈال کر بند کر کے رکھا تھا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ عین ممکن ہے کہ یہ تھیلے بعد میں کسی نے اس میں سے کچھ تلاش کرنے کے لیے کھولے ہوں اور اسی کوشش میں کچرا بکھر گیا ہو۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے پاکستانی ایجنٹ نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ایک خاص ٹیم اس کچرے کو جولائی میں ٹھکانے لگائے گی۔
یہ تو روداد ایک ٹیم کی تھی جس نے 2018 میں موسم سرما میں کے ٹو سر کرنے کی کوشش کی جس میں وہ ناکام ہوئی۔
2013 سے کے ٹو اور بالتورو کے ٹریک کی صفائی کا آغاز کیا گیا۔ اس مہم میں کے ٹو، گاشر برم ون، گاشر برم ٹو، براڈ پیک، کونکورڈیا اور بالتورو گلیشیر کی صفائی کی جاتی ہے۔ صرف 2017 میں دو ہزار کلوگرام گندگی اکٹھی کی گئی جبکہ ساڑھے تین ہزار کلوگرام انسانی فضلہ اسکولے لے جا کر ضائع کیا گیا۔
کئی کوہ پیماؤں نے کے ٹو پر گندگی کے حوالے سے بات کی ہے۔ کوہ پیما جو چوٹی سر کرنے کے لیے رسیاں لگاتے ہیں لیکن اتار کر اپنے ساتھ نہیں لے کر جاتے، کوہ پیما جو اپنے ساتھ لائی گئی اشیا کی گندگی کو اپنے ساتھ نیچے بیس کیمپ پر لانے کی بجائے ادھر ہی چھوڑ دیتے ہیں۔
روسی کوہ پیماؤں کی ایک ٹیم نے اپنے بلاگ میں کے ٹو پر گندگی کی بات کرتے ہوئے 2019 میں لکھا تھا کہ کے ٹو پر ہاؤس چمنی کا مقام کوہ پیماؤں کی گندگی کا ڈھیر بن کر رہ گیا ہے۔ اس جگہ خالی اور بھرے ہوئے آکسیجن سلینڈرز ہیں اور پرانے خیموں سمیت دیگر گندگی بکھری ہوئی ہے۔
چوٹیوں کو سر کرنے کے لیے آنے والے کوہ پیماؤں کے لیے کچرے کے حوالے سے قواعد و ضوابط موجود ہیں۔ ان پر بیس کیمپ کی حد تک تو عمل درآمد کافی ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے اونچائی کی جانب جائیں تو ان ضوابط پر عمل میں کمی واقع ہوتی جاتی ہے۔
لیکن اس حوالے سے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ جیسے کہ 2019 سے چینی حکام نے چین کی جانب سے ایورسٹ کو سر کرنے والوں سے ڈیڑھ ہزار ڈالر اضافی چارج کرنے شروع کیے ہیں۔ یہ اضافی چارجز گندگی صاف کرنے کی مد میں لیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ چین ہی میں دیگر دو چوٹیوں کے لیے ایک ایک ہزار ڈالر چارج کیے جا رہے ہیں۔ اس اضافی چارج کے علاوہ کوہ پیما ٹیم کے ہر رکن پر لازم ہے کہ وہ نیچے آتے ہوئے آٹھ کلوگرام کا کچرا اپنے ساتھ لے کر آئے۔
نیپال میں ایورسٹ پر جانے والے شرپا کو ہر کلوگرام کچرا نیچے لانے پر اضافی رقم دی جاتی ہے۔
پاکستان کو چاہیے کہ کے ٹو، براڈ پیک، گاشر برم ون، گاشر برم ٹو پر سے دباؤ کم کرنے کے لیے سوات کی چوٹیوں کی تشہیر کی جائے جو اتنی بلند تو نہیں لیکن اتنی ہی حسین، دشوار اور دلکش ہیں۔
90 کی دہائی میں پاکستان نے بھی کوہ پیماؤں پر سخت قواعد و ضوابط لاگو کیے تھے۔ رابطہ افسروں کے ذریعے کوہ پیماؤں پر لازم ہوتا تھا کہ وہ کچرا چھوڑ کر نہیں جائیں گے، ملک سے جانے سے قبل جتنی رسی کوہ پیماؤں کی ٹیم اپنے ہمراہ لائی تھی وہ لے کر جائیں گے اور ہر ایک میٹر کم رسی پر بھاری جرمانہ عائد کیا جاتا تھا۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جن ٹیموں پر جرمانہ عائد کیا جاتا تھا ان کی جانب سے مذمت کی جانے لگی اور ان ٹیموں کے سفارت خانوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور اس طرح یہ ڈیوٹی اب مقامی ٹور آپریٹرز کے حوالے کر دی گئی ہے جس کے باعث اس پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔
ایورسٹ، کے ٹو اور دیگر بلند چوٹیوں کی صفائی کا کام کرنا قابل تحسین قدم ہے لیکن اگر کوہ پیماؤں نے اپنی حرکتیں نہ بدلیں اور اسی طرح گندگی کرتے گئے تو یہ کاوش بہت چھوٹی ہے۔ ان کو اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ گندگی اور چوٹی سر کرنے کے لیے لگائی گئی رسیوں کو چھوڑ جانا کوئی معمولی غلطی نہیں بلکہ ایک جرم ہے، جرم جو وہ قدرت کے خلاف کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گندگی کا مسئلہ صرف چوٹیوں کی اونچائیوں ہی کا نہیں ہے بلکہ وہ راستہ جو ان چوٹیوں کی جانب جاتا ہے وہاں پر بھی ہے۔ کے ٹو کی بات کرتے ہیں تو ایک ہی راستہ ہے جو بالتورو گلیشیر سے کے ٹو کو لے جاتا ہے اور وہی راستہ گاشر برم ایک، گاشر برم ٹو اور براڈ پیک کو لے کر جاتا ہے۔ اس وجہ سے کوہ پیمائی کے سیزن میں یہاں پر اتنے لوگ آتے ہیں جس کی وجہ سے قدرتی ماحول کو نقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔
اس راستے پر گندگی صرف کچرے کی صورت میں نہیں بلکہ انسانی فضلوں کی صورت میں بھی ہے۔ اس راستے میں بنائے ہوئے ریسٹ روم اتنی بڑی تعداد میں فضلے کو ہینڈل کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
پاکستان کی وزارت برائے ثقافت اور کھیل نے کہا تھا کہ موسم سرما یعنی کوہ پیمائی کے سیزن میں ایک ریسٹ روم کو تقریباً 20 ہزار لوگ استعمال کر سکیں گے۔ اس حوالے سے نیشنل جیوگرافک اٹلی کے ایڈیشن میں کارلو البرٹو پنیلی لکھتے ہیں کہ 20 ہزار افراد کا مطلب ہے کہ ایک سیزن کے دوران ایک ریسٹ روم میں تقریباً 50 ٹن انسانی فضلہ۔
ان کا دعوی ہے کہ ’سیوریج کا نظام جو اتنی بڑی مقدار میں انسانی فضلے کے تودے کو ہینڈل کر سکے اور خاص طور پر اس علاقے میں جہاں پانی کی کمی ہے ابھی تک ایجاد نہیں ہوا۔‘
پاکستان کو چاہیے کہ جہاں ایک جانب سیاحت کو فروغ دیا جا رہا ہے وہیں کے ٹو، براڈ پیک، گاشر برم ون، گاشر برم ٹو پر سے دباؤ کم کرنے کے لیے سوات کی چوٹیوں کی تشہیر کی جائے جو اتنی بلند تو نہیں لیکن اتنی ہی حسین، دشوار اور دلکش ہیں۔
دوسری جانب حکومت کو ایک بار پھر سے 90 کی دہائی کے رابطہ افسران کے کردار کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے جو گندگی پھیلانے پر بھاری جرمانے لگایا کرتے تھے۔