روسی جنگ مسلط ہونے کے بعد پناہ کے متلاشی یوکرینی یتیم بچے

یوکرین سے درجنوں بچے پولینڈ پہنچ رہے ہیں، جہاں کی حکومت نے پناہ گزینوں کی مدد کے لیے پونے دو ارب ڈالر امداد کا بل منظور کیا ہے۔

روس کی مسلط کردہ جنگ کے بعد یوکرینی بچوں کی بڑی تعداد ملک سے باہر محفوظ پناہ گاہوں کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہے۔

دارالحکومت کیئف سے نقل مکانی کرنے والے بچے پولینڈ بارڈر پہنچ رہے ہیں، جہاں صبح کے ابتدائی اوقات میں پولیس اور دوسرے رضا کار انہیں بسوں میں پناہ گاہوں کی طرف لے جائیں گے۔ ان میں سے بہت سے بچے کیئف کے یتیم خانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

پولش سرحد پر پہنچنے والے ان بچوں کو پولیس افسران کی جانب سے کھلونے بھی دیے گئے۔

پولش حکومت نے یوکرین سے آنے والے پناہ گزینوں کی مدد کے لیے پونے دو ارب ڈالر امداد کا بل منظور کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے مطابق یوکرین پر روسی حملے کے بعد 1.7 ملین سے زیادہ یوکرینی پناہ گزین اب تک وسطی یورپ میں داخل ہو چکے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پولینڈ نے 24 فروری کو روسی جارحیت کے بعد 10 لاکھ سے زائد یوکرینی پناہ گزینوں کی میزبانی کی ہے۔

پولش بارڈر گارڈ سروس نے اتوار کو ٹویٹ کیا کہ ’یہ ایک ملین انسانوں کا المیہ ہے، ایک ملین لوگوں کو جنگ کی وجہ سے اپنے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔‘

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے مطابق کُل 1,735,068 شہری جن میں زیادہ تر خواتین اور بچےشامل ہیں، اب تک سرحد عبور کرکے وسطی یورپ میں داخل ہو چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوزپ بوریل نے کہا کہ اگر یوکرین پر روس کی بمباری جاری رہی تو یورپی یونین زیادہ سے زیادہ 50 لاکھ یوکرینی پناہ گزینوں کو سنبھال سکتا ہے۔

واضح رہے کہ روس یوکرین میں اپنی کارروائیوں کو ’خصوصی آپریشن‘ قرار دیتا ہے۔

پرزیمیسل ٹرین سٹیشن پر، جو یوکرین کے ساتھ پولینڈ کی مصروف ترین سرحدی گزرگاہ ہے، کیئف سے یتیم خانوں کے تقریباً 150 یوکرینی بچے پہنچے۔

اسی قصبے میں بچوں کے ایک خیراتی ادارے نے ان کے استقبال کے لیے ایک سکول کا سپورٹس ہال تیار کیا تھا۔

پولینڈ کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’ہیپی کڈز‘ میں کرائسس ریسپانس کے نائب سربراہ پرزیک میکولک کے مطابق: ’صرف دو دن پہلے، ہمارے پاس سات سو بچے لائے گئے۔ آپ جانتے ہیں اتنی بڑی تعداد میں بچوں کے لیے مناسب بندوبست کرنا ایک مشکل کام ہے۔ بہت سے لوگ ہماری مدد کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس خوراک وافر ہے۔ ہمیں بہت چھوٹے بچوں کے ڈائپر بھی تبدیل کرنے ہوں گے۔ پھر وہ دوبارہ بسوں میں پولینڈ کے لیے روانہ ہوں گے۔ یہ مزید بیس گھنٹے کا سفر ہوگا۔‘

ہیپی کڈز نامی ادارے نے اب تک تقریباً دو ہزار یتیم بچوں کو یوکرین سے نکالنے میں مدد کی ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا