شہباز شریف نے وزیراعظم بننے کے ساتھ ہی وفاقی ملازمین کے دفتری اوقات کار میں تبدیلی کرتے ہوئے ہفتے میں صرف ایک دن چھٹی کا اعلان کیا تھا، تاہم سرکاری ملازمین کہتے ہیں کہ اگر تنخواہوں اور وظائف میں اضافہ کردیا جائے تو وہ ہفتے میں چھ دن خوشی سے کام کرنے کو تیار ہیں۔
گذشتہ روز سوشل میڈیا پر مختلف پیجز اور گروپس میں وفاقی ملازمین کی جانب سے ہفتے کو بطور ورکنگ ڈے قرار دینے کے خلاف احتجاج کی اطلاعات سامنے آ رہی تھیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے ان اطلاعات کی کھوج کے لیے آج صبح وفاقی سیکریٹریٹ کا رخ کیا تو صورت حال معمول کے مطابق تھی۔ سیکریٹریٹ کے مرکزی دروازے کے باہر معمول کے مطابق ہی اسلام آباد پولیس کے چند اہلکار نیلی وردیوں میں تعینات تھے، جو حالات کے معمول پر ہونے کی پہلی دلیل تھی۔
سیکریٹریٹ کے اندر مختلف بلاکس کے داخلی دروازوں پر بھی اسلام آباد پولیس کے دو دو اہلکار موجود تھے۔ کیو بلاک کے باہر فسادات سے نمٹنے کا خصوصی سکواڈ اپنی سیاہ وردیوں میں موجود تھا اور بلاک کی عمارت کے باہر باغیچے میں درختوں کی چھاؤں میں سستا رہا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے کیو بلاک کے خزانہ ڈویژن کے مختلف ملازمین سے گفتگو کرنے کی کوشش کی تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ آیا احتجاج کی کال پر جزو وقتی دھرنا یا جلوس کب اور کہاں نکالا جا رہا ہے، تاہم مختلف ملازمین سے گفتگو کے دوران اندازہ ہوا کہ آج احتجاج کی کال دی ہی نہیں گئی۔
اسی دوران انڈپینڈنٹ اردو کا رابطہ وفاقی سیکریٹریٹ ملازمین کی کورکمیٹی کے سربراہ رحمٰن علی باجوہ سے ہوا، جنہوں نے وضاحت کی آج وفاقی سیکریٹریٹ کے ملازمین کی کور کمیٹی کی میٹنگ بلائی گئی تھی، جس سے بعض افراد نے احتجاج کا تاثر لے لیا۔
رحمٰن باجوہ نے بتایا کہ ’وفاقی سیکریٹریٹ کی نمائندہ میٹنگ میں آئندہ کے لائحہ عمل پر فیصلہ ہوگا جس کے بعد تمام وفاقی اداروں بشمول سی ڈی اے، نیشنل سیونگز، انشورنس کارپوزیشن وغیرہ کی میٹنگ کی کال دی جائے گی، جس میں کسی راست اقدام کا فیصلہ ہو گا۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کے ایک سوال کے جواب میں رحمٰن باجوہ کا کہنا تھا: ’ہمیں ہفتے میں چھ روز کام کرنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن ہمارے کچھ مسائل ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’ہفتے میں ایک اضافی روز کام پر آنے جانے کے لیے سفری وظائف کا اعلان نہیں کیا گیا۔ جو ملازمین ہفتے کے اختتام پر اپنے خاندان سے ملنے آبائی علاقوں میں چلے جاتے تھے اب ایک روز کی چھٹی میں ایسا نہیں کر سکیں گے۔‘
رحمٰن باجوہ نے بتایا کہ ’کچھ میرے جیسے ملازمین بھی ہیں جو ہفتے کے اختتام پر خود کپڑے دھوتے ہیں۔‘
رحمٰن باجوہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’ہمیں اسلام آباد میں ہی رہائش دے دی جائے جہاں ملازمین اپنے خاندانوں کے ساتھ رہ سکیں۔ اس طرح ہمیں ہفتے کے اختتام پر آبائی علاقوں میں جانے کی جھنجھٹ سے نجات مل سکے گی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کے ایک سوال کے جواب میں رحمٰن باجوہ نے بتایا کہ ’جب شہباز شریف وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے اپنے دور میں پنجاب کے صوبائی ملازمین کی تنخواہوں میں مجموعی طور پر تقریباً ڈیڑھ سو فیصد اضافہ کیا تھا۔‘
انہوں نے کہا: ’ہمارا بنیادی مطالبہ ہے ہی یہ کہ وفاق اور پنجاب کے ملازمین کے درمیان تنخواہ، وظائف اور مراعات کے اس بنیادی فرق کو ختم کیا جائے تاکہ ملازمین اور افسران خوشی سے ہفتے میں چھ چھ روز کام کریں۔‘
یاد رہے کہ شہباز شریف نے وزیراعظم بننے کے ساتھ ہی وفاقی ملازمین کے دفتری اوقات کار میں تبدیلی کی تھی۔
رمضان میں ملازمین کو صبح آٹھ سے تین بجے تک اور جمعے کو صبح آٹھ سے دوپہر ایک بجے تک دفتری اوقات کار کی پابندی کرنی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کے حکم پر دو ہفتہ وار چھٹیوں کو ختم کرکے ایک کر دیا گیا تھا، جس کے بعد وفاقی ملازمین کو صرف اتوار کے روز چھٹی میسر آئی گی۔