پاکستان میں حالیہ ہفتوں میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بتدریج اضافے کے بعد حکومت کی جانب سے اب قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا گیا ہے، جس کی وجہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی بتائی گئی۔
ساتھ ہی ملک میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ حکومت روس سے درآمد کیا ہوا سستا تیل کیوں نہیں خریدتی؟ اگر بھارت روس سے تیل خرید سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں؟
روس سے تیل خریدنے کی بحث اس وقت شروع ہوئی جب 26 مئی 2022 کو سابق وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا کہ ’نااہل اور بے حس حکومت نے روس کے ساتھ 30 فیصد سستے تیل کے معاہدے پر عمل نہیں کیا۔‘
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان روس سے درآمد شدہ تیل استعمال کر سکتا ہے؟ اور کیا پاکستانی ریفائنریز میں روسی خام تیل کو پراسس کرنے یعنی قابل استعمال بنانے کی تکنیکی صلاحیت موجود ہے؟
یہ بھی یاد رہے کہ کسی ملک سے تیل خریدنے سے پہلے کچھ بنیادی نکات کو مد نظر رکھنا ہوگا۔
پاکستان میں فعال ایک ریفائنری کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چونکہ روس کے پاس بھی خام تیل کی مختلف اقسام موجود ہیں اس لیے اس کی کچھ اقسام پاکستان استعمال کر سکتا ہے جبکہ ہیوی کروڈ جس کے اندر سلفر زیادہ ہے وہ استعمال نہیں کیا جاتا کیونکہ ہائی سلفر خام تیل کی پاکستان میں کھپت نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’ہم ہلکے اور کم سلفر والا تیل استعمال کر سکتے ہیں لیکن اس کے آپریشنل مسائل بھی ہیں، یہ 50 فیصد تک استعمال کر سکتے ہیں جبکہ فوری طور پر 30 فیصد تک خام تیل استعمال کر سکتے ہیں۔‘
اسی طرح بائیکو پٹرولیم کے چئیرمین وصی خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’تکنیکی طور پر ریفائنریز نے حکومت کو بتایا ہے کہ روس کا خام تیل ریفائن ہو سکتا ہے، جغرافیائی سیاسی مسائل کے پیش نظر حکومتی سطح پر معاہدہ کرنا چاہیے۔ روس اور مشرق وسطیٰ کا خام تیل ایک جیسے ہی ہیں اس لیے روس سے درآمد خام تیل پاکستان میں ریفائن کیا جا سکتا ہے۔‘
چند روز قبل وزارت توانائی نے روس کے تیل کی درآمد کے حوالے سے چار ریفائنریز اور آئل کمپنیوں سے سفارشات طلب کی تھیں جس کے اگلے روز وزارت کو جواب موصول ہو گئے تھے۔
دوسرے ممالک کے ساتھ معاہدے
ایک ریفائنری عہدیدار کے مطابق عام طور پر ریفائنریز کا کمپنیوں سے خام تیل درآمد کرنے سے متعلق طویل عرصہ کا معاہدہ ہوتا ہے اور ان کمپنیوں کو منع نہیں کیا جاسکتا۔ روس سے تیل درآمد کرنے کے لیے پچھلے معاہدوں میں رد و بدل کرنا ہوگا، جسے فوری طور پر نہیں کیا جا سکتا۔
تاہم بائیکو پٹرولیم کے چیئرمین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگر کسی ریفائنری کا مشرق وسطیٰ سے خام تیل خریدنے کا معاہدہ ہے تو وہ اس حساب سے ہی روس سے تیل خریدے گی۔ ہیوی کروڈ آئل کے علاوہ ہر قسم کا خام تیل ریفائن کر سکتے ہیں۔
تیل کے نقل و حمل کے اخراجات
ریفائنری سے منسلک عہدیدار کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ سے خام تیل منگوانے میں وقت کم لگتا ہے اور ٹرانسپورٹیشن/نقل و حمل کے اخراجات بھی کم ہیں جبکہ روس سے آئے ہوئے خام تیل کے اخراجات چار گنا زیادہ ہیں۔ روس سے آئے تیل کو پاکستان پہنچنے میں 22 روز لگتے ہیں۔
چیئرمین بائیکو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ روس سے درآمد شدہ تیل کی نقل و حمل کے اخراجات بہت زیادہ ہوں گے جبکہ اسے پاکستان پہنچنے میں 20 سے 25 دن لگیں گے۔ دوسری جانب مشرق وسطیٰ سے درآمد تیل کو پاکستان پہنچنے میں تین سے چار روز لگتے ہیں۔
ڈالر میں تجارت کرنے پر پابندی؟
ایک ریفائنری کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ’روس سے تیل منگوانے پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ ڈالر میں تجارت کرنے پر پابندیاں ہیں۔ روس کو اگر ڈالر کی مد میں ادائیگی کرتے ہیں تو کوئی بھی بینک لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) نہیں کھولے گا۔ حکومتوں کو آپس میں معاہدہ کرنا ہوگا اور ادائیگی کا طریقہ کار طے کرنا ہوگا۔
’مزید یہ کہ روس سے خام تیل منگوانے پر فریٹ آٹھ ڈالرز ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ روس قیمت میں کتنی رعایت دیتا ہے۔ اگر مارکیٹ سے تیل 30 ڈالر سستا ملتا ہے تو آٹھ ڈالر ٹرانسپورٹیشن چارجز/نقل و حمل کے اخراجات مسئلہ نہیں ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے استعمال کے لیے 70 فیصد پیٹرول درآمد کیا جاتا ہے جبکہ 30 فیصد پیٹرول پاکستان میں بنایا جاتا ہے۔ ریفائنری عہدیدار نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ’روس سے تیل درآمد کرنے کی بجائے پیٹرول اور ڈیزل منگوایا جانا چاہیے کیونکہ اس سے عام صارف کو فائدہ پہنچ سکے گا۔‘
ادھر وصی خان کہتے ہیں کہ ’اصل مسئلہ روس سے خام تیل کی ادائیگی کا طریقہ کار طے کرنا ہے کیونکہ پابندیوں کی وجہ سے روس کو بینکنگ کے ذریعے ادائیگیوں میں مسائل ہوں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں روس سے خام تیل کس قیمت پر ملتا ہے، اگر سٹینڈرڈ ریٹس پر ملے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ روس نے حالیہ دنوں میں فنشڈ گڈز کی درآمد کم کر رکھی ہے تو نہیں کہہ سکتے کہ روس ہمیں پیٹرول اور ڈیزل ایکسپورٹ کرے گا بھی یا نہیں۔‘
کیا تحریک انصاف حکومت نے ریفائنریز سے کوئی تجاویز مانگی تھیں؟
پاکستانی ریفائنری کے سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ ’ماضی میں پی ٹی آئی کی حکومت نے روس کے خام تیل کے حوالے سے ریفائنریز کے ساتھ کوئی بات نہیں کی تاہم سابق حکومت اسے درآمد کرنے میں دلچسپی رکھتی تھی۔‘
بائیکو پیٹرولیم کے چیئرمین وصی خان نے کہا ہے کہ ’پی ٹی آئی کی حکومت تیل کی درآمد سے متعلق ریفائنریز سے کبھی بھی تجاویز نہیں مانگیں۔‘
حکومت کا کیا کہنا ہے؟
وزیر پٹرولیم مصدق ملک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم محدود ریفائنریوں میں روس کے تیل کو ریفائن کر سکتے ہیں، لیکن اسے بھی اریبین لائٹ خام تیل میں ملا کر ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان ریفائنری لمیٹڈ نے حکومت کو بتایا ہے کہ 20 سے 25 فیصد خام تیل اریبین لائٹ خام تیل کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘
بقول مصدق ملک: ’بائیکو پیٹرولیم پاکستان ریفائنری کے ساتھ کوئی بھی کام نہیں کرنا چاہتا۔‘
انہوں نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’اگر روسی ریفائنڈ مصنوعات 30 فیصد سستی ہیں تو بولی میں روسی تیل کیوں نہیں آ رہا؟‘
مصدق ملک نے پی ٹی آئی رہنماؤں عمران خان اور فواد چوہدری کے بیانات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’روس کے سفیر نے بھی ٹیلی ویژن پر یہی کہا کہ پاکستان کا تیل سے متعلق روس کے ساتھ معاہدہ نہیں ہوا۔ روس اور پاکستان بھی وہی بات کہہ رہا ہے تو باقی کیا بچتا ہے؟‘
کیا پاکستان عالمی اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو نظر انداز کر سکتا ہے؟
پاکستان اور روس کے درمیان تیل کی خرید و فروخت پر عالمی اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اس حوالے سے سینیئر صحافی ظفر بھٹہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے چند سوال اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’کون سا بین الاقوامی بینک ایل سی کی تصدیق کرے گا؟ تیل درآمد کے دوران شپنگ انڈسٹری کو کیسے ادائیگی کی جائے گی؟ اس وقت پاکستان میں تیل کی مارکیٹ سعودی عرب کے پاس ہے، کوئی اپنی مارکیٹ کیوں چھوڑنا چاہے گا؟ اور روس سے تیل درآمد نہ کر پانے کی آخری وجہ امریکہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ سمندری ٹریفک امریکہ کنٹرول کرتا ہے۔‘
’ماضی میں حبیب بینک اور نیشنل بینک کو امریکہ میں منی لانڈرنگ کی وجہ سے جرمانہ ادا کرنا پڑا تھا۔ اس سب کے بعد کون سا بینک ایل سی کھولنا چاہے گا؟‘
انہوں نے بتایا کہ ’2017 میں سابق وزیراعظم نواز شریف جب سعودی عرب گئے، اس وقت قطر اور سعودی عرب کے حالات کافی کشیدہ تھے۔ سعودی عرب نے اس وقت پاکستان کو ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن اور قطر کے ساتھ ایل این جی ڈیل منسوخ کرنے کا کہا تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’روس کی کئی کمپنیوں پر امریکہ نے پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ خطے میں روس اور امریکہ کے مابین کشیدگی بھی روس سے تیل درآمد کرنے میں رکاوٹ پیدا کر سکتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ چار ایسے نکات ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کا روس سے تیل درآمد کرنا بہت مشکل ہے جس میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کو بالکل بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘