چینیوں کے بارے میں بہت سی باتیں مشہور ہیں۔ جیسے کہ چینی سب کچھ کھا جاتے ہیں۔ کیا کتا، کیا بلی، کیا گدھا، کیا مینڈک۔ بس جو شے ہاتھ لگی، زندہ یا مردہ، اسے منہ میں ڈال کر چبانا شروع کر دیا۔
اب چاہے جتنا کہا جائے کہ وہاں ایسا بھی کوئی اندھیر نہیں مچا ہوا، تو لوگ یقین نہیں کرتے۔
اسی طرح چینیوں کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ دبلے پتلے ہوتے ہیں۔ ان کا پیٹ تو ہوتا ہی نہیں ہے۔ اس کی وجہ ان کا ابلا ہوا کھانا کھانا اور پانی پینا ہے۔
اگر میں کہوں کہ ایسا بھی نہیں ہے تو؟
چینی بھی موٹے ہوتے ہیں بلکہ اچھے خاصے موٹے ہوتے ہیں۔
چین کے قومی صحت کمیشن کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق چین کے بالغ افراد کی نصف آبادی زیادہ وزن کی حامل ہے جبکہ ان میں 16.4 فیصد لوگ موٹاپے کا شکار ہیں۔
چینیوں میں بڑھتے ہوئے موٹاپے کی ایک اہم وجہ چین کا تیزی سے ترقی کرنا ہے۔
اگرچہ چین کی معاشی ترقی نے ملک میں غربت کا خاتمہ کیا ہے اور لوگوں کو خوشحال بنایا ہے لیکن دوسری طرف اس نے چینیوں کو ان کے روایتی اور متوازن کھانوں سے ہٹا کر الٹرا پروسیس شدہ جنک فوڈ کا عادی بھی بنایا ہے۔
چینیوں کی زندگیاں بھی پہلے کے مقابلے میں مصروف ترین ہو چکی ہیں۔ دن کے اختتام پر بہت سے چینیوں کے پاس جسمانی مشقت کرنے کا وقت ہی نہیں بچتا۔
نتیجتاً وہ موٹے ہوتے جاتے ہیں۔
ابلے ہوئے چینی کھانے کی بات کریں تو وہ بھی ایک افسانہ ہی ہے۔ چین بہت بڑا ہے۔ اس کے کھانوں میں بھی اسی حساب سے تنوع پایا جاتا ہے۔ تیل یا گھی کا بے دریغ استعمال ان کھانوں میں مشترکہ ہے۔
شمالی چین میں نوڈلز عام استعمال کیے جاتے ہیں۔ جو چاؤ مِن آپ یہاں ایک چمچ تیل میں بنا کر کھاتے ہیں، وہی چاؤ مِن بنانے کے لیے چینی ڈھیر سارے تیل کا استعمال کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں بتاتی چلوں، اس ڈش کا نام چاؤ مِن نہیں بلکہ چھاؤ میان ہے۔ چھاؤ کا مطلب تلی ہوئی کوئی شے اور میان کا مطلب نوڈلز ہے۔ یعنی چھاؤ میان تلے ہوئے نوڈلز کو کہا جاتا ہے۔
چھاؤ میان کی پلیٹ میں جتنے نوڈلز ہوتے ہیں اتنا ہی تیل بھی ہوتا ہے۔
چینی پانی گرم پیتے ہیں۔ بالکل کھولتا ہوا۔ حتیٰ کہ پیزا کے ساتھ بھی گرم پانی پیش کرتے ہیں۔ چین میں ٹھنڈا پانی ڈھونڈنے کے لیے باقاعدہ جوتے گھسانے پڑتے ہیں۔
چینی کھانوں میں نمک اور چینی کا بھی دل کھول کر استعمال کرتے ہیں۔ انہیں میٹھے مشروبات بھی بہت پسند ہیں۔ یہ تمام اشیا ان کا وزن بڑھا رہی ہیں۔
چین کی ایک بچہ پالیسی نے بھی چینیوں میں موٹاپے کو فروغ دیا ہے۔ چینی جوڑے اپنے ایک بچے کو بہترین زندگی فراہم کرنے کے لیے دن رات کام کرتے ہیں۔ ان کے پاس اپنے بچے کے لیے وقت کم ہوتا ہے۔
ان کا بچہ ان کے والدین یعنی بچے کے نانا نانی یا دادا دادی پالتے ہیں۔ وہ اس بچے کو بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ جو وہ چاہتا ہے اسے کھانے کے لیے دیتے ہیں اور جو وہ چاہتا ہے اسے کرنے دیتے ہیں۔
ان بچوں کی جسمانی سرگرمیاں بھی کم ہوتی ہیں۔ کچھ سالوں میں یہ موٹے ہو جاتے ہیں۔
یہ بچے جب موٹاپے کی حد کو پہنچ جاتے ہیں تو ان کے والدین کو انہیں موٹاپا کنٹرول کلب میں داخل کروانا پڑتا ہے۔
وہاں چینی بچوں سے سخت جسمانی ورزش کروائی جاتی ہے اور صحت مند کھانا کھانے کے لیے دیا جاتا ہے۔
چینی حکومت چینیوں کے بڑھتے ہوئے موٹاپے سے پریشان ہے۔ چینیوں میں ذیابطیس، کینسر اور دل کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔
چینیوں کو دوبارہ سے صحت مند بنانے کے لیے چینی حکومت نے صحت مند چین 2030 کے نام سے ایک پراگرام کا آغاز کیا ہے جس کے تحت عوام کو صحت مند زندگی گزارنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔
چین مشروبات بنانے والی کمپنیوں کو ایسے صحت مند مشروبات بنانے کا کہہ رہا ہے جن میں چینی اور چکنائی کی مقدار کم ہو۔
چین نے اپنے سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز بند کر دی ہیں جن میں لوگ بہت زیادہ کھانا کھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
2020 میں چینی صدر شی جن پنگ نے صاف پلیٹ کے نام سے ایک کیمپین کا آغاز کیا تھا۔ اس مہم کا مقصد لوگوں کو کھانا ضائع نہ کرنے کی ترغیب دینا تھا۔
اس مہم کے تحت عوام کو ریستورانوں میں صرف ضرورت کا کھانا منگوانے کا کہا گیا تھا۔
ریستوران کھانا ضائع کرنے والے افراد سے جرمانہ بھی وصول کر سکتے تھے۔ حکومت بھی کھانا ضائع کرنے والے ریستورانوں سے جرمانہ وصول کر رہی تھی۔
اس مہم کا ایک مقصد لوگوں کے کھانے پینے کی عادات کو کنٹرول کرنا اور انہیں صحت مند زندگی کی طرف لانا بھی تھا۔
ان قومی مہموں کی وجہ سے چینی اپنا وزن کم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
چین میں فِٹنس ایپس کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کچھ ایپس پر صارفین کو اپنی ورزش کے ریکارڈ میں اضافے پر پوائنٹس بھی ملتے ہیں۔ بہت سے چینی ان پوائنٹس کے چکر میں بھی اپنا موٹاپا کم کر رہے ہیں۔
یہ ایک لمبا سفر ہے۔ تب تک چینیوں کو پتلا سمجھنا اور ان کے لائف سٹائل کو مثالی جاننا محض ایک خام خیالی ہے۔
موٹاپے کے معاملے میں چینی ہمارے بہن بھائی ہیں۔