اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں چین میں اویغور مسلمانوں پر مبینہ مظالم کے حوالے سے مغربی ممالک کی پیش کردہ تحریک کو مسترد کر دیا گیا۔
پاکستان سمیت کونسل کے رکن کئی مسلمان ممالک نے بھی اس تحریک کی مخالفت کی ہے۔
کونسل کی 16 سالہ تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے جب کسی تحریک کو مسترد کیا گیا ہے، جسے مبصرین احتساب کی کوششوں، انسانی حقوق پر مغرب کے اخلاقی اختیار اور خود اقوام متحدہ کی ساکھ دونوں کے لیے دھچکے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے گذشتہ ماہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے میں چین کو ہدف بنانے کے فیصلے کا مسودہ پیش کیا تھا، جس میں چینی خطے سنکیانگ پر بات چیت کا مطالبہ کیا گیا۔
یہ اقدام اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سابق سربراہ مشیل بیچلیٹ کی جانب سے سنکیانگ کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کرنے کے بعد سامنے آیا ہے، جو کافی عرصے سے تاخیر کا شکار تھی۔ اس رپورٹ میں دور دراز مغربی خطے میں اویغوروں اور دیگر مسلمان اقلیتوں کے خلاف ممکنہ جرائم کا حوالہ دیا گیا۔
مغربی ممالک کا خیال تھا کہ چونکہ نتائج کے بارے میں صرف بات کرنے کی کوشش کرنے سے آگے نہیں بڑھنا، لہذا دوسرے ممالک اسے ایجنڈے پر ڈالنے سے نہیں روکیں گے۔
تاہم جینیوا میں 47 رکنی کونسل کے ممالک نے سنکیانگ میں انسانی حقوق پر بحث کے انعقاد کے خلاف 19 کے مقابلے میں 17 ووٹ ڈالے جبکہ 11 ممالک نے اس میں حصہ نہیں لیا۔
چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چن ینگ نے ٹویٹ کیا کہ ’یہ ترقی پذیر ممالک، سچائی اور انصاف کی فتح ہے۔‘
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس ووٹ کو مضحکہ خیز قرار دیا جبکہ ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے کہا کہ اس اقدام نے متاثرین کو دھوکہ دیا ہے۔
کونسل میں امریکی سفیر مشیل ٹیلر نے ٹویٹ کیا: ’امریکہ سنکیانگ کے بارے میں بحث کو روکنے کے لیے آج کے ووٹ کی مذمت کرتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بارے میں کارروائی نہ کرنا ’شرمناک طور پر ظاہر کرتا ہے کہ کچھ ممالک جانچ پڑتال سے آزاد ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔‘
اس تحریک کے خلاف ووٹ دینے والے ممالک میں پاکستان، انڈونیشیا، قازقستان، قطر، متحدہ عرب امارات، سوڈان، بولیویا، کیمرون، چین، کیوبا، اریٹیریا، گیبون، آئیوری کوسٹ، موریطانیہ، نمیبیا، نیپال، سینیگال، ازبکستان اور وینزویلا شامل تھے۔
جبکہ ارجنٹائن، آرمینیا، بینن، برازیل، گیمبیا، بھارت، لیبیا، ملاوی، ملائیشیا، میکسیکو اور یوکرین نے اس تحریک پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ ’واشنگٹن اور کچھ مغربی ممالک نے سنکیانگ کو افواہیں پھیلانے اور پریشانی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا، یہ انسانی حقوق کی آڑ میں سیاسی جوڑ توڑ میں ملوث ہیں اور چین کے امیج کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
ترجمان نے مزید کہا: ’بعض مغربی ممالک کی سازش ایک بار پھر ناکام ہوگئی ہے۔ سنکیانگ سے متعلق مسائل بنیادی طور پر انسانی حقوق کے مسائل نہیں ہیں، بلکہ انسداد دہشت گردی، انتہا پسندی کے خاتمے اور علیحدگی پسندی مخالف مسائل ہیں۔‘
اس کا مسودہ امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، جرمنی، ناروے، سویڈن اور ترکی سمیت دیگر ممالک نے پیش کیا تھا۔
ایک مغربی سفارت کار نے اس بات پر زور دیا کہ نتائج سے قطع نظر سنکیانگ کو شہ سرخیوں میں لانے کا ’نمبر ایک مقصد پورا ہو گیا ہے۔‘
31 اگست کو ان کی مدت ملازمت ختم ہونے سے چند منٹ قبل شائع ہونے والی مشیل بیچلیٹ کی رپورٹ میں بڑے پیمانے پر تشدد، غیر قانونی حراست اور مذہبی اور تولیدی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ’قابل اعتماد‘ الزامات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
اس رپورٹ سے اقوام متحدہ کی جانب سے طویل عرصے سے جاری ان الزامات کی توثیق ہوئی کہ بیجنگ نے دس لاکھ سے زائد اویغوروں اور دیگر مسلمانوں کو حراست میں لیا اور خواتین کی زبردستی نس بندی کی۔
بیجنگ نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا کہ وہ انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے خطے میں پیشہ ورانہ تربیتی مراکز چلا رہا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکرٹری جنرل ایگنس کالامارڈ نے کہا ہے کہ جمعرات کو ہونے والی ووٹنگ نے کونسل کو ’اقوام متحدہ کے اپنے انسانی حقوق کے دفتر کے نتائج کو نظر انداز کرنے کی مضحکہ خیز پوزیشن‘ میں ڈال دیا ہے۔
ایگنس کالامارڈ کے مطابق: ’کونسل کے رکن ممالک کے لیے ایک ایسی صورت حال پر تبادلہ خیال کرنے کے خلاف ووٹ دینا، جہاں اقوام متحدہ خود کہتا ہے کہ انسانیت کے خلاف جرائم واقع ہوسکتے ہیں، انسانی حقوق کونسل کی ہر اس چیز کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے، جس کے لیے انسانی حقوق کونسل کو کھڑا ہونا چاہیے۔‘
ہیومن رائٹس واچ کی چین کی ڈائریکٹر سوفی رچرڈسن نے اسے ’ذمہ داری سے دست برداری اور اویغور متاثرین کے ساتھ دھوکہ دہی‘ قرار دیا۔
انٹرنیشنل سروس فار ہیومن رائٹس چائنا کے وکیل رافیل ویانا ڈیوڈ نے کہا کہ ’کونسل کے ارکان نے آج ایک خوفناک پیغام بھیجا ہے کہ چین کو ابھی تک کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آئی ایس ایچ آر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر فل لنچ نے کہا کہ یہ ’شرمناک‘ ہے کہ ’مسلم ممالک نے اویغوروں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ کی بحث کی بھی حمایت نہیں کی۔
انڈونیشیا کے سفیر فیبریان رڈیارڈ نے کہا کہ ’دنیا کا سب سے بڑا مسلم ملک اور ایک متحرک جمہوریت ہونے کے ناطے ہم اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی حالت زار پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے، لیکن جیسا کہ چین نے اس بحث پر رضامندی ظاہر نہیں کی، اس لیے اس سے ’معنی خیز پیش رفت حاصل نہیں ہوگی،‘ لہذا انڈونیشیا نے ’نہیں‘ میں ووٹ دیا۔‘
قطر کے سفیر ہند المفتاح نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا۔ چین نے مشیل بیچلیٹ کی رپورٹ کو بھرپور انداز میں مسترد کیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ افریقی ممالک، جہاں چین بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرنے کے بعد سب سے بڑا قرض دہندہ ہے، خاص طور پر بھاری لابنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ افریقہ کے 13 ممالک میں سے صرف صومالیہ نے ’ہاں‘ میں ووٹ دیا ہے۔
برطانیہ کے سفیر سائمن مینلے نے کہا: ’کم ووٹوں کے فرق سے بیجنگ پر یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ ’انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے معاملے میں بہت سے ممالک خاموش نہیں رہیں گے، چاہے وہ مجرم کوئی بھی ہو۔‘
خبررساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ورلڈ اویغور کانگریس کے صدر ڈولکن عیسیٰ نے ردعمل میں کہا کہ ’یہ ایک سانحہ ہے، یہ واقعی مایوس کن ہے۔ ہم کبھی ہار نہیں مانیں گے لیکن ہم مسلم ممالک کے رد عمل سے واقعی مایوس ہیں۔‘
ڈولکن کی والدہ چین کے ایک کیمپ میں فوت ہوگئی تھیں اور ان کے دو بھائی تاحال لاپتہ ہیں۔
برطانیہ، امریکہ اور جرمنی جیسے ممالک نے جمعرات کے نتائج کے باوجود احتساب کے لیے کام جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔