سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف ملک میں عام انتخابات جلد منعقد کروانے کے لیے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا بظاہر آخری پتہ کھیلنے کی دھمکی دے رہی ہے۔ اگر وہ 20 دسمبر تک ایسا کرتی ہے تو کیا قبل از رمضان مارچ میں عام انتخابات ممکن ہوسکتے ہیں؟
تجزیہ کاروں کے مطابق اسمبلیوں کی تحلیل کے باوجود مارچ اور اپریل میں ماہ رمضان کے باعث انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہی ہونے کے امکانات ہیں۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کے مطابق بھی انتخابی عمل کے لیے جتنا عرصہ درکار ہوتا ہے وہ عام انتخابات 2023 کے اپنے مقررہ وقت پر ہونے کی طرف واضح اشارہ ہے۔
ایک جائزے کے مطابق اگر یہ اسمبلیاں 20 دسمبر سے قبل تحلیل کی جاتی ہیں اور وفاقی حکومت اس دباؤ کے نتیجے میں عام انتخابات منعقد کروانے کا اعلان کرتی ہے تو پھر 90 دن کی مدت میں الیکشن کمیشن 20 مارچ تک شاید ایسا کرنے کا پابند ہوسکتا ہے۔ مارچ میں موسم بھی عام انتخابات کے لیے قدرے سازگار ہوسکتا ہے۔ تاہم وہ کہہ چکا ہے کہ جب تک نئی حلقہ بندیاں نہ ہوں، انتخابات صاف اور شفاف نہیں ہو سکتے۔
لیکن اگر 20 دسمبر تک اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد بھی عام انتخابات کا فیصلہ نہیں ہوتا تو پھر یہ ممکن نہیں۔ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ان صوبوں میں ضمنی انتخابات منعقد کروائے گی، تاہم اس سلسلے میں صدر عارف علوی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے درمیان بیک ڈور رابطے بھی جاری ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق مارچ میں اسمبلیاں تحلیل ہونا مشکل ہے کیونکہ نہ تو انتخابی اصلاحات کا عمل شروع ہوا اور نہ ہی تحریک انصاف چیف الیکشن کمشنر کو ہٹانے کا مطالبہ پارلیمنٹ میں واپسی کے بغیر منوانے کی پوزیشن میں ہے۔
اس سے قبل اس سال تین اپریل کو عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے صدر عارف علوی کو اسمبلیاں تحلیل کرنے اور عام انتخابات کروانے کی تجویز دے دی ہے جس سے پہلے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو ڈپٹی سپیکر نے مسترد کر دیا تھا۔ بعد میں سپریم کورٹ نے اس رولنگ کو کالعدم قرار دیا جس کے نتیجے میں اسمبلی توڑنے کا عمل بھی غیر آئینی قرار پایا۔
کیا قبل از وقت انتخابات ممکن ہیں؟
اس سوال کے جواب میں سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اس امکان کو رد کیا کہ اب قبل از وقت انتخابات ہو سکتے ہیں۔
ان کے خیال میں: ’موجودہ صورت حال میں پی ٹی آئی اسمبلیاں تحلیل نہیں کرے گی کیوں کہ چوہدری پرویز الٰہی نے واضح کر دیا ہے کہ مارچ تک کچھ نہیں ہونے والا۔ عمران خان کے مطالبے میں بھی پہلے جیسی شدت نہیں رہی۔ وہ خود معیشت کی صورت حال کے پیش نظر صوبائی، ضمنی یا عام انتخابات فوری ہونے کو خارج از امکان قرار دے چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی تو وزارتوں کا حلف اٹھا رہے ہیں جبکہ باقی اراکین فنڈز حلقوں میں خرچ کرنے کی دلیل بھی پیش کر چکے ہیں۔‘
کنور دلشاد کے مطابق: ’اگر فرض کریں پی ٹی آئی پھر بھی اسمبلیوں کی تحلیل اور وقت سے پہلے انتخاب چاہتی ہے تو مارچ کے اؤاخر میں رمضان شروع ہونا ہے اور اس ماہ کے دوران الیکشن کمیشن شیڈول جاری نہیں کرتا۔ صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے پر الیکشن کمیشن ضمنی الیکشن کی بجائے عام انتخابات کے ساتھ ہی صوبائی الیکشن کروائے گا تو اس صورت میں بھی الیکشن مقررہ وقت پر ہی ہو گا۔‘
کنور دلشاد کا مزید کہنا تھا کہ ’اسمبلیاں تحلیل بھی کی گئیں تو معاملہ سپریم کورٹ جائے گا اور کوئی ٹھوس وجہ نہ ہونے پر عدلیہ عام انتخابات تک صوبائی حکومتیں بحال کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔‘
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ ’جس طرح تحریک انصاف کی قیادت پارلیمنٹ سے باہر رہ کر انتخابی عمل کو شفاف بنانے کی بات کر رہی ہے تو ایسا ممکن نہیں۔ انہیں نظام کا حصہ بننے کے لیے پارلیمانی سیاست کی طرف لوٹنا ہو گا۔‘
تجزیہ کار تنزیلہ مظہر بھی سمجھتی ہیں کہ جلد انتخابات کا کوئی امکان نہیں ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’جب سے تحریک انصاف جلسے جلوس اور لانگ مارچ کر رہی ہے، اس دباؤ کے ذریعے انہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ان کے مطالبات میں اسمبلیاں توڑنے یا قبل از وقت انتخابات سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کی بہتری کی جدوجہد دکھائی دی۔‘
تنزیلہ کے مطابق: ’خان صاحب خود تقاریر میں کہتے رہے کہ وہ حکمران اتحاد سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں اور وہی انتخابات جلد کروانے میں کردار ادا کریں۔‘
تنزیلہ کے بقول: ’دسمبر گزر رہا ہے نیا سال شروع ہونے والا ہے جو الیکشن کا سال ہو سکتا ہے، اس لیے اب نہ ہی اسمبلیاں تحلیل ہوتی دکھائی دے رہی ہیں اور نہ ہی جلد انتخابات ہوتے نظر آرہے ہیں۔‘
تحریک انصاف کا اسمبلیوں میں واپسی کا کتنا امکان ہے؟
اس سوال کے جواب میں کنور دلشاد نے کہا کہ ’آئینی طور پر انتخابی اصلاحات میں اپوزیشن کا بھر پور کردار ہوتا ہے۔ الیکشن کمشنر کو ہٹانے یا لگانے کا معاملہ بھی اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم کی مشاورت سے ممکن ہے، اسی طرح انتخابات کے لیے نگران حکومتوں کا قیام بھی قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے عمل میں لایا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’اگر تحریک انصاف پارلیمنٹ میں واپس جا کر اپوزیشن کا کردار حاصل نہیں کرے گی تو یہ سارے کام ان کے بغیر انجام دیے جائیں گے لہذا پی ٹی آئی کے لیے شاید یہ قابل قبول نہ ہو مگر وہ روکاوٹ نہیں ڈال سکیں گے، کیوں کہ اپوزیشن ایوان کے اندر ہی موثر ہو سکتی ہے، سڑکوں پر تو فیصلے نہیں ہو سکتے۔ اس صورت حال میں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کی کوشش ہوئی تو صوبائی نگران سیٹ اپ بھی پی ٹی آئی کی مشاورت کے بغیر ہی بن جائے گا تو بھی سیاسی نقصان تحریک انصاف کو ہو گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تنزیلہ مظہر کے مطابق: ’تحریک انصاف نے طویل جدوجہد کے بعد جو سیاسی کامیابی حاصل کرنے کا سوچا تھا، وہ حاصل نہیں ہو سکی اور اب سیاسی فیصلوں سے انہیں سیاسی دھارے میں واپس آنا ہو گا تاکہ وہ اپنا آئینی کردار حاصل کر سکیں اور انتخابی اصلاحات سمیت دیگر معاملات میں اپنی بات منوا سکیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’صدر مملکت عارف علوی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے درمیان بات چیت یا دیگر بیک ڈور سیاسی رابطوں سے مسائل کا حل سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر ہی نکل سکتا ہے، جس کی کوشش بھی جاری ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ شاید پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں واپسی کی راہ ہموار کر رہی ہے جو کرنی بھی چاہیے۔‘
تنزیلہ کے مطابق: ’جس طرح پی ٹی آئی قیادت ارشد شریف کیس، اعظم سواتی اور شہباز گل پر مقدمات کے معاملے پر سابق اورموجودہ عسکری قیادت پر تنقید کر رہی ہے اس سے انہیں مزید سیاسی نقصان ہوسکتا ہے۔ پی ٹی آئی نے پہلے سائفر، پھر فوج کی مداخلت سے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی، وزیر آباد حملے پر الزامات کے ثبوت پیش نہیں کیے۔ اب بھی وہ کسی ثبوت کے بغیر الزامات لگا رہے ہیں اس سے انہیں سیاسی فائدہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔‘
تنزیلہ نے کہا کہ ’عمران خان کو سمجھنا چاہیے کہ سیاسی کھیل میں کامیابی ٹھوس سیاسی نظریے اور بیانیے کے ساتھ موثر حکمت عملی سے ملتی ہے۔ وہ دباؤ ڈال کر شرائط منوانے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتے، اس لیےعملی اور پارلیمانی سیاست کی طرف واپسی سے ہی وہ آئندہ انتخابات میں کامیابی کا راستہ بنا سکتے ہیں۔‘