کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کسی نے مجھے فون پر ایک پی ڈی ایف فائل بھیجی، میں نے وہ فائل کھولی تو اس میں لاہور کے مختلف مقامات پر ملنے والے کلچے چنوں کی فہرست تھی۔
کسی مردِ حر نے بے حد عرق ریزی کے ساتھ وہ فہرست بنائی تھی اور تقریباً 100 سے زائد ایسے مقامات کی نشاندہی کی تھی جہاں لاہور کے بہترین کلچے چنے دستیاب تھے/ہیں۔
ویسے اس کو فہرست کہنا مناسب نہیں کیونکہ اس میں محقق نے ہر دکان پر ملنے والے کلچے چنوں کی تفصیل بتائی تھی، مثلاً یہ کہ ایک پلیٹ کی قیمت کیا ہے، ذائقہ کیسا ہے، ساتھ میں کلچہ ہوتا ہے یا نان؟
بیٹھنے کی جگہ صاف ستھری ہے یا نہیں، دکان کا مکمل پتہ کیا ہے، چنے بڑے ہیں چھوٹے ہیں یا چکڑ چھولے ہیں، ساتھ میں انڈا یا مرغ دستیاب ہے یا نہیں۔
یہ تمام باتیں لکھنے کے بعد چنوں کے اس پی ایچ ڈی ڈاکٹر نے ہر دکان کی درجہ بندی بھی کی اور بتایا کہ اس کے دس میں سے کتنے نمبر ہیں۔
اس تحقیق کو مکمل کرنے میں موصوف کو کم از کم چھ ماہ تو لگے ہوں گے۔
اتنا وقت تو اپنے ہاں کے پی ایچ ڈی بھی مقالے کو نہیں دیتے۔ کانٹ چھانٹ کر مقالہ لکھ مارتے ہیں جبکہ کلچہ چنے کی تحقیق میں تو سرقے کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔
میرے بس میں ہوتا تو اس مردِ عاقل کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند دے دیتا۔
افسوس کہ وہ پی ڈی ایف فائل فون سے حذف ہوگئی ورنہ میں یقیناً لاہور کے ان ’کھابہ گیری‘ کے اڈوں پر جا کر کلچے چنے ضرور کھاتا جس کا ذکر محقق نے اپنے کتابچے میں کیا تھا۔
ویسے ان میں سے کئی مشہور جگہوں کا علم تو اس خاکسار کو پہلے سے ہی تھا اور مجھے یہ جان کر فرحت محسوس ہوئی کہ ان جگہوں کی جو ریٹنگ میں نے کر رکھی تھی، محقق نے بھی کم و بیش انہیں اسی درجے میں رکھا تھا۔
ان میں سے تین جگہیں میری پسندیدہ ہیں، لکشمی چوک کے شاہی مرغ چنے، نیلا گنبد غلام رسول کے چنے اور ہال روڈ کے چنے۔
لاہور کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہاں آپ کو پست معیار کا کھانا تلاش کرنے کے لیے بہت جدو جہد کرنی پڑتی ہے، چنوں کی بات ہی کر لیتے ہی۔
آپ کسی بھی عام ریڑھی والے سے نان چنے لے کر کھانے شروع کریں، آپ انگلیاں چاٹتے رہ جائیں گے۔
لاہور میں وحدت روڈ پر پائلٹ سیکنڈری سکول ہے، اس کے باہر ایک شخص نان چنے بیچا کرتا تھا۔ اس کا ذائقہ مجھے آج بھی یاد ہے، بہترین تھا، اب شاید وہ نہیں رہا۔
میں اپنے قارئین سے معذرت خواہ ہوں کہ خالصتاً لاہور کے کلچہ چنوں کے بارے میں کالم لکھ رہا ہوں، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پاکستان کے دیگر شہر کھانے پینے کے مقابلے میں کسی سے پیچھے ہیں۔
کراچی کی مثال لیتے ہیں، یہاں کھانے کی جتنی اقسام دستیاب ہیں وہ لاہور میں نہیں۔
لاہور میں ’شاکاہاری‘ کھانا بہت مشکل سے ملتا ہے۔ بڑے بڑے ریستورانوں میں بھی سبزی کی ایک آدھ ڈش ہی ہوتی ہے جبکہ کراچی میں نسبتاً تنوع ہے۔
وہاں دیگر ممالک کے کھانوں کی ورائٹی زیادہ ہے، شاید اتنی اسلام آباد میں بھی نہیں۔ اسی طرح جو سری پائے گوجرانوالہ میں ملتے ہیں، وہ پورے ہند سندھ میں کہیں نہیں ملتے۔
غنی کے نام سے یہ پائے علی الصبح ہی ختم ہوجاتے ہیں، ان کی خاص بات نہ صرف پائے کا سائز ہے بلکہ اس کا بہت مناسب حد تک گلا ہوا ہونا اور سالن کا ذائقہ ہے۔
اچھے پائے کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ کلچوں کے ساتھ کھاتے ہوئے آپ کے ہاتھ یوں چپک جاتے ہیں جیسے ان میں گوند لگ گئی ہو۔
ویسے انہیں سفید چاولوں کے ساتھ کھانا بھی افضل ہے۔ گوجرانوالہ شہر میں بھی برا کھانا آپ کو ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا، لاہور کی طرح وہاں بھی چپے چپے پر آپ کو اعلیٰ قسم کا بار بی کیو مل جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پشاور اور کوئٹہ بھی کسی سے کم نہیں۔ ان شہروں کے ٹریڈ مارک کھانے تو اب پورے پاکستان میں پھیل چکے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے مجھے کوئٹہ جانے کا اتفاق ہوااور میں وہاں کے کھانوں کا عاشق ہوگیا، گوشت کو جس طرح وہاں بنا کر کھایا جاتا ہے ویسے میں نے کہیں اور نہیں دیکھا۔
خدا میرے گناہ معاف کرے، میں کس بے دردی سے گوشت خوری کا ذکر کر رہا ہوں حالانکہ میرا اللہ جانتا ہے کہ میں ذہنی طور پر شاکاہاری ہوچکا ہوں، مگر ذرا نچلے درجے پر فائز ہوں۔
میرا وہ حال ہے کہ جب مرغا حلال ہو کر سامنے آتا ہے تو یہ سوچ کر کھا لیتا ہوں کہ اب تو یہ حلال ہوگیا، اب میں نہیں کھاؤں گا تو کوئی اور کھا لے گا۔
لیکن سچی بات ہے کہ میرے بس میں ہوتو گوشت کھانا چھوڑ دوں مگر کیا کروں ’چھٹتا نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگا ہوا۔‘
اصل میں اس کالم کا محرک ایک فہرست بنی جو میں نے انٹر نیٹ پر دیکھی۔ کسی ویب سائٹ نے دنیا کے ان بہترین ممالک کی فہرست بنائی ہے جہاں کے کھانے لا جواب ہیں۔
اس فہرست میں اٹلی، یونان، سپین، جاپان، بھارت، میکسیکو، ترکی، امریکہ، فرانس اور پیرو بالترتیب ایک سے دسویں نمبر پر ہیں جبکہ ایران کا 24 واں اور پاکستان کا 47 واں نمبر ہے۔
یہ درست ہے کہ ایسی کوئی بھی فہرست نہیں بنائی جا سکتی، جس پر دنیا کے لوگ متفق ہوسکیں لیکن بہرحال ہم اس پر رائے دینے کا حق تو محفوظ رکھتے ہیں۔
میری رائے میں ہر ملک کے لوگ اپنے مقامی کھانوں کے ذائقوں کے عادی ہوتے ہیں اور انہی کو پسند کرتے ہیں۔
مثلاً چینی کھانوں کے نام پر ہم جو کچھ کھاتے ہیں وہ چینی عوام نہیں کھاتے اور جو وہ کھاتے ہیں وہ ہم نہیں کھا سکتے۔
اسی طرح اٹلی والے خود کو پیزا کا موجد کہتے ہیں جبکہ ہم جو پیزا کھاتے ہیں۔ وہ اسے سرے سے پیزا ہی نہیں مانتے حالانکہ مجھےیوں لگتا ہے جیسے اصل پیزا وہ ہے جو ہم نے ایجاد کیا ہے، اٹلی والے پیزا نہیں ’کتلما‘ کھاتے ہیں۔
ان فروعی باتوں سے قطع نظر مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ امریکہ کو کیا سوچ کر پہلے دس ممالک میں شامل کیا گیا ہے۔
اٹلی، ترکی، سپین، میکسیکو کی تو سمجھ آتی ہے کہ ان کے کھانے پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ یہ امریکہ برگر کے سوا کیا بیچتا ہے؟
اپنے ملک کی بات بھی کرلیتے ہیں، تھوڑا بہت تعصب ہی سہی مگر پاکستان کا 47 واں نمبر نہیں بنتا۔
اگر بھارت پانچویں نمبر پر ہوسکتا ہے تو پاکستان کو کھانے کے معاملے میں اس سے اوپر ہونا چاہیے۔
اگر کسی کو شک ہو تو لاہور آکر صرف بونگ کھا لے، اس کے بعد بھی اگر وہ اس فہرست کو غلط نہ کہے تو پھرسمجھ لیں کہ اس کی بخشش نہیں ہوسکے گی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔