یورپی یونین نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن پر تہران کے خلاف پابندیوں کے پانچویں دور میں پیر کو ایران کے وزرائے تعلیم اور ثقافت کے اثاثے منجمد کر کے ان پر ویزا پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یورپی یونین کے نئے اقدامات میں 32 افراد اور دو اداروں کو ہدف بنایا گیا ہے اور ان کا مقصد زیادہ تر قانون سازوں، عدلیہ کے اہلکاروں اور جیل حکام پر پابندی لگانا جن پر جبر میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔
لکسمبرگ کے وزیر خارجہ ژاں ایسل بورن نے پیر کو کہا ہے کہ ’یورپی یونین درجنوں ایرانی شہریوں پر پابندیاں عائد کرے گی جن میں جج بھی شامل ہیں جنہوں نے مظاہرین کو سزائے موت دینے میں کردار ادا کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایسل بورن نے برسلز میں یورپی یونین کے دیگر وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقات سے قبل کہا کہ ’ججز، جیل اہلکار اور وہ لوگ جو دوسروں کو موت کی سزا دیتے ہیں، ان میں سے درجنوں کو پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا جائے گا۔‘
انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر اے این اے کا کہنا ہے کہ ایران میں ستمبر سے ہونے والے احتجاج میں جمعے تک 528 مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 71 بچے بھی شامل ہیں۔
تنظیم کے مطابق مظاہروں میں سرکاری فورسز کے 70 اہلکار بھی مارے گئے جب کہ 19 ہزار 763 مظاہرین کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ انہیں گرفتار کیا گیا۔
گذشتہ سال ستمبر میں نوجوان ایرانی کرد خاتون کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد بدامنی کی ملک گیر لہر نے ایران کو ہلاک کر رکھ دیا تھا۔
کرد خاتون مہسا امینی کو ملک میں خواتین کے لیے رائج اسلامی لباس کے سخت ضابطے کی خلاف ورزی کرنے پر حراست میں لیا گیا۔ انقلاب کے بعد سے یہ مظاہرے ایران کے لیے سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہیں۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق ایران کی عدلیہ مظاہروں میں شرکت کرنے والے 160 افراد کو پانچ سے دس سال تک قید کی سزا سنا چکی ہے۔
اسی طرح 80 افراد کو دو سے پانچ سال تک قید کی سزا سنائی گئی ہے جبکہ 160 افراد دو سال تک سزا کاٹیں گے۔
ان مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے پر امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ پہلے بھی تہران پر کئی پابندیاں عائد کر چکے ہیں۔