سپریم کورٹ میں صوبائی انتخابات کے التوا کے خلاف تحریکِ انصاف کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران ججوں نے سوال اٹھایا کہ کیا حکومت کے لیے 20 ارب روپے جمع کرنا مشکل کام ہے؟‘
سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کے لیے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے، 20 ارب کا کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے قرار دیا کہ ’حکومت اخراجات کم کر کے 20 ارب نکال سکتی ہے۔ ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے، معاشی بحران کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، بحران سے نمٹنے کے لیے قربانی دینا ہوتی ہے، پانچ فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے۔‘
کیس کی سماعت بدھ تک کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔
منگل کے روز چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ حکومت کی نمائندگی نئے اٹارنی جنرل منصور عثمان جبکہ پی ٹی آئی کی نمائندگی بیرسٹر علی ظفر نے کی۔
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے نئے اٹارنی جنرل منصور عثمان کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ توقع ہے آپ سے بہترین معاونت ملے گی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں؟ اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہو جائے گی، سیاسی جماعتوں کو فریق بنانے کے لیے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا تھا، جمہوریت کیلیے قانون کی حکمرانی لازمی ہے، قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی۔ سیاسی درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوگا تو مسائل بڑھیں گے۔‘
اٹارنی جنرل نے گذشتہ شام جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلہ اگر چار تین کا ہوا تو کسی حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی، عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے، یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کر لیا جائے۔‘
اس پر چیف جسٹس نے قرار دیا کہ ’اس وقت مقدمہ تاریخ دینے کا نہیں منسوخ کرنے کا ہے۔ جمہوریت کے لیے انتخابات ضروری ہیں، تکنیکی بنیادوں پر معاملہ خراب نہ کریں، سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوچکا ہے۔ اس معاملے کو دوبارہ اٹھا کر عدالت میں پیش نہ کیا جائے، تمام قومی اداروں کا احترام لازمی ہے۔‘
اس موقعے پر پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ ’ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا ہے۔‘
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ کی اعلیٰ قیادت سے بھی ایسے رویے کی توقع ہے، پہل تحریک انصاف کو کرنا ہو گی کیونکہ عدالت میں وہ آئے ہیں، ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے، معاشی حالات دیکھیں آٹے کے لیے لائنیں لگی ہوئی ہیں، آپس میں دست و گریبان ہونے کے بجائے ان لوگوں کا سوچیں۔‘
جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ ’کیا الیکشن شیڈول 90 دن سے کم کیا جا سکتا ہے؟‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے پاس 90 دن کے اندر شیڈول ایڈجسٹ کرنے کا اختیار ہے۔ الیکشن کمیشن بظاہر 90 دن سے تاخیر نہیں کرسکتا۔
اس موقعے پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’نوے دن اب بھی گزر گئے ہیں۔ آئین کی ہمارے ملک میں کوئی پرواہ نہیں کرتا ۔ الیکشن تو ہر صورت ہونے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اب نوے دن سے زیادہ تاریح کون بڑھائے گا؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایک بندے کی خواہش پر اسمبلی تحلیل ہونی چاہیے؟‘
جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ ’کیا پارلیمنٹ کو اس معاملے کو نہیں دیکھنا چاہیے؟‘
وکیل علی ظفر نے کہا کہ ’تحریک عدم اعتماد آجائے تو اسمبلی تحلیل نہیں ہو سکتی۔ وزیر اعظم اور وزیراعلی کے اختیار پر پارلیمنٹ بحث کرسکتی ہے۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’عدالتی فیصلے پر عمل ہو چکا ہے۔ صدر مملکت کی تاریخ پر الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کیا، سوال یہ ہے کیا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ صدر مملکت کی تاریخ کو تبدیل کر دے؟ کیا الیکشن کمیشن 90 دن سے زیادہ کی تاخیر کر سکتا ہے؟‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 انتحابات منسوح کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ 2008 میں انتحابات تاخیر کا شکار ہوئے تھے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے وجوہات بتا کر کہا ہے کہ وہ آئینی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن اٹھ اکتوبر کی تاریخ نہ دیتا تو کیا ہوتا؟‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن تاریح تبدیل کرنے کے لیے صدر سے رجوع کرسکتا تھا۔ تمام انتظامی ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں۔ وجوہات ٹھوس ہوں تو ہی کمیشن رجوع کرسکتا ہے۔‘
علی ظفر وکیل نے کہا کہ ’آرٹیکل220 تمام حکومتوں اور اداروں کو کمیشن سے تعاون کا پابند کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے صرف اداروں سے موقف لے کر فیصلہ لکھ دیا۔ عدالت کمیشن سے پوچھے کہ آئینی اختیار استعمال کیوں نہیں کیا۔ انتظامی ادارے تعاون نہ کریں تو ارٹیکل 5 کا اطلاق ہو گا۔ ہر ادارہ اور شخص قانون پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ الیکشن کے مطابق آرٹیکل 254 الیکشن منسوخ کرنے کا اختیار دیتا ہے۔‘
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’اگر انتخابات ممکن نہیں تھے تو الیکشن کمیشن کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا، ایک اسمبلی کے شیڈول کے دوران دوسری اسمبلی تحلیل ہو جائے تو ایک ہی دن انتخابات کے لیے رجوع کیا جا سکتا ہے، الیکشن کمیشن ازخود ایسا حکم جاری نہیں کر سکتا، الیکشن کمیشن چھ ماہ الیکشن آگے کر سکتا ہے تو دو سال بھی کر سکے گا۔‘
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے؟ یہاں آئین خاموش ہے، کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیئے۔‘
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ ترمیم کر لے تو یہ سب سے اچھا ہو گا، سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں ان کا کیا ہو گا؟ اگر فنڈز کا معاملہ ہے تو نگراں حکومت فنڈز کیسے دے گی؟ اس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ جس بنیاد پر الیکشن ملتوی ہوئے اس طرح تو کبھی الیکشن نہیں ہو سکتے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’اخبار میں وزیر اعظم کا بیان پڑھا تھا، وفاقی حکومت کہتی ہے فروری تک پانچ سو ارب ٹیکس جمع کیا، حیرت ہے کہ پانچ سو ارب میں سے 20 ارب انتخابات کے لیے نہیں دیے گئے۔‘
وکیل علی ظفر نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کے حکم نامے کے مطابق سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ فنڈز دینا مشکل ہو گا، وزارت خزانہ نے مشکل کہا تھا انکار نہیں کیا تھا۔‘
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’سیکرٹری خزانہ نے تو کہا الیکشن کے لیے فنڈز نہ ابھی ہیں نہ آگے ہوں گے، اس کا مطلب ہے کہ الیکشن تو ہوں گے ہی نہیں، حکومت کا کوئی سیکرٹری ایسا بیان کیسے دے سکتا ہے؟ ٹیکس جمع ہو کر فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز میں جاتا ہے۔ اگر اسمبلی تحلیل ہوجائے تو کیا فنڈز جاری ہی نہیں ہو سکیں گے؟‘
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’فیڈرل کنسولیڈیٹد فنڈ پارلیمنٹ کی مرضی سے خرچ ہوتے ہیں۔ موجودہ کیس میں قومی اسمبلی موجود ہے۔ نئی اسمبلی اخراجات کی منظوری دیتی ہے۔ سیکریٹری خزانہ کے بیان کا جواب الیکشن کمیشن ہی دے گا۔‘
’لیپ ٹاپ کے لیے دس ارب روپے نکل سکتے ہیں تو الیکشن کے لیے 20 ارب کیوں نہیں‘
وقفے کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’صرف پنجاب کی حد تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کیا گیا ہے، گورنر کے پی کا معاملہ سپریم کورٹ میں الگ سے چیلنج ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کا دفاع اس کے وکلا کریں گے۔ حکومت سے فنڈز اور سکیورٹی کا مطالبہ کیا گیا تھا، پولنگ سٹیشنوں پر فوج تعیناتی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’فنڈز کے حوالے سے کل سیکرٹری خزانہ سے معلومات لے کر تفصیل دوں گا، آئی ایم ایف پروگرام کے تحت 170 ارب حکومت نے وصول کرنے تھے، اضافی وصولی کے لیے ضمنی بجٹ دیا گیا، جو معلومات ابھی دے رہا ہوں وہ میری سمجھ کے مطابق ہیں۔‘
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ’کیا مزید اقدامات کر کے 20 ارب اضافی نہیں لیے جا سکتے؟ کیا 20 ارب روپیے جمع کرنا حکومت کے لیے مشکل کام ہے؟‘ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’معاملہ ترجیحات کا ہے۔‘
’لیپ ٹاپ کے لیے دس ارب روپے نکل سکتے ہیں تو الیکشن کے لیے 20 ارب کیوں نہیں۔‘
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’اضافی ٹیکس لگانے سے عوام کو مزید مشکلات ہوں گی، آئی ایم ایف کا مطالبہ تھا کہ شرح سود میں اضافہ کیا جائے۔ شرح سود میں اضافے سے مقامی قرضوں میں اضافہ ہوا۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاق غریب اور صوبے امیر ہوئے ہیں۔ معاشی صورت حال سے کل آگاہ کروں گا۔‘
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ’وزرات دفاع نے کہا سکیورٹی حالات کی وجہ سے فوج فراہم نہیں کر سکتے۔‘
اس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کیا ہم سمجھیں کہ ’قوم دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ کیا یہ پھر بنانا رپبلک بن گیا ہے۔ آرمڈ فورسسز حکومت کے ماتحت ہوتی ہیں۔ وہ کیسے کہہ سکتے ہیں ہم نہیں کر سکتے؟ ڈیوٹی کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟ ڈیوٹی تو ڈیوٹی ہے۔ جب الیکشن ہوں تو فوج کا کام ہے کہ سکیورٹی فراہم کرے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’فوج کی نقل و حرکت پر بھی اخراجات ہوتے ہیں۔ کیا یہ ایسا مسلہ ہے جسے حل نہیں کیا جا سکتا؟ دہشت گردی کا مسلۂ نوے کی دہائی سے ہے۔ کیا نوے کی دہائی میں الیکشن نہیں ہوئے۔ کئی سیاسی لیڈرز کی جانیں قربان ہوئی۔ پیپلزپارٹی کی سربراہ کی شہادت بڑا سانحہ تھا۔ ان تمام حالات کے باوجود انتحابات ہوتے رہے ہیں۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’مردم شماری ابھی بھی جاری ہے، عدالت کو مردم شماری سے بھی آگاہ کروں گا۔ سرکاری عملہ مردم شماری میں مصروف ہے، مردم شماری کے بعد نشستوں کا تناسب بدل جاتا ہے، جس مردم شماری کے نتائج شائع ہو چکے ہوں اس کی بنیاد پر ہی الیکشن ہوتے ہیں۔‘
سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’اصل صورتحال یہ ہے کہ اتنے لمبے عرصے کے لیے الیکشن ملتوی کیسے کیے جا سکتے ہیں؟ الیکشن کے لیے سیاسی پختگی کی ضرورت ہے، جہاں نقل و حرکت مشکل ہو وہاں الیکشن ملتوی ہوسکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ جلد بازی میں لکھا گیا، الیکشن کمیشن کے پاس کوئی اتھارٹی یا قانون نہیں تھا کہ الیکشن کمیشن تاریخ کی توسیع کرے۔ سیاسی میچورٹی پر بھی ہدایات لے کر آئیں۔‘
سماعت بدھ ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔