برطانوی مفرور ریپسٹ آٹھ سال بعد ٹی وی پروگرام سے پکڑا گیا

2014 میں برطانوی کاؤنٹی ایسٹ سسیکس کی ہوو کراؤن کورٹ نے سرباز نجم الدین علی کو ریپ، ریپ کی کوشش، گھس کر حملہ کرنے اور ایک سال قبل 2013 میں ہیسٹنگز میں ایک 33 سالہ شخص کے خلاف جنسی زیادتی کے دو الزامات میں مجرم قرار دیا تھا۔

چھتیس سالہ سرباز نجم الدین علی 2014 میں ریپ اور جنسی ہراسانی کے مقدمے کی سماعت کے دوران ہوو کراؤن کورٹ سے فرار ہوئے، جس کے بعد وہ یورپ میں لاپتہ تھے (تصویر: سسیکس پولیس/ فیس بک)

ایک ریپسٹ جو مقدمے کی سماعت کے دوران دوپہر کے کھانے کے وقفے میں عدالت سے فرار ہو گیا تھا آٹھ سال بعد اس وقت پکڑا گیا جب جرمنی کی پولیس نے اسے کرائم واچ اپیل کی تصاویر میں دیکھا۔

36 سالہ سرباز نجم الدین علی جو پیشے کے اعتبار سے ایک حجام ہیں، 2014 میں ریپ اور جنسی ہراسانی کے مقدمے کی سماعت کے دوران ہوو کراؤن کورٹ سے فرار ہوئے، جس کے بعد وہ یورپ میں لاپتہ تھے۔

برطانوی ویب سائٹ ڈیلی میل کے مطابق سرباز نجم الدین علی کو جرمنی میں دیکھا گیا، جس کے بعد فرانس کے حوالے کر دیا گیا جہاں ایک الگ کیس میں جنسی زیادتی کے الزام میں ایک سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

اس کے بعد علی کو برطانیہ بھیج دیا گیا، جہاں اب وہ لیوس کراؤن کورٹ کی جانب سے سنائی گئی سات سال قید کاٹ رہے ہیں۔

سال 2014 میں ہوو کراؤن کورٹ نے سرباز نجم الدین علی کو ریپ، ریپ کی کوشش، گھس کر حملہ کرنے اور ایک سال قبل 2013 میں ہیسٹنگز میں ایک 33 سالہ شخص کے خلاف جنسی زیادتی کے دو الزامات میں مجرم قرار دیا تھا۔

اس مقدمے کی سماعت کے دوران علی کو ضمانت مل گئی تھی جس کی وجہ سے وہ دوپہر کے کھانے کے وقفے کے دوران کٹہرے سے اتر سکتے تھے لیکن احاطہ عدالت سے باہر نہیں جا سکتے تھے۔

لیکن جج کی کارروائی کے دوران، علی فرار اور پھر غائب ہو گئے، جس کے بعد جیوری نے ان کی غیر موجودگی میں انہیں مجرم قرار دے دیا تھا۔

سسیکس پولیس نے علی کی گرفتاری کے لیے وارنٹ جاری کیا اور ان کا سراغ لگانے کی اپیل جاری کی تھی۔

بعد ازاں ان کا کیس بی بی سی کے پروگرام ’کرائم واچ‘ کے موسٹ وانٹڈ اپیل میں شامل کیا گیا۔

مشرقی سسیکس کے علاقے سینٹ لیونارڈس آن سی میں رہنے والے سرباز نجم الدین علی کو جرمنی کے شہر ریگنسبرگ سے گرفتار کیا گیا تھا اور وہاں جرائم کی تحقیقات کے دوران جرمن پولیس کے ایک افسر نے کرائم واچ کی تصاویر سے انہیں پہچان لیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بعد ازاں اس افسر نے سسیکس پولیس سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ علی ان کی تحویل میں ہیں، لیکن اس کے بعد یورپی وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد سے پہلے انہیں فرانس کے حوالے کر دیا گیا جہاں انہوں نے جرم کیا تھا۔

فرانس کی جیل میں رہنے کے بعد انہیں وہاں گرفتار کر لیا گیا اور واپس برطانیہ کے حوالے کر دیا گیا۔ برطانیہ واپس آنے پر علی لیوس کراؤن کورٹ میں پیش ہوئے۔

اس سماعت میں انہیں سات سال اور اس کے علاوہ توسیعی لائسنس پر مزید تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔

 توسیع شدہ لائسنس کا مطلب ہے کہ وہ مزید زیرنگرانی رہیں گے۔

انہیں جنسی نقصان کی روک تھام کے حکم نامے پر بھی عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، جو 16 سال سے کم عمر کے بچوں تک ان کی رسائی کو محدود کرے گا۔ یہ فرانس میں سزا کے بعد نوجوانوں کو ان سے لاحق خطرات کا عکاس ہے۔

سسیکس پولیس کے تفتیش کار جولین سٹوکس کا کہنا ہے کہ ’اس بہادر متاثرہ کی تعریف کی جانی چاہیے، جس نے 2014 میں مقدمے کی سماعت کے دوران گواہی دی تھی اور جسے علی کی سزا کے بعد انصاف کے لیے آٹھ سال سے زیادہ انتظار کرنا پڑا تھا۔‘

جولین سٹوکس کے مطابق ’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سسیکس پولیس علی جیسے خطرناک مجرموں کو انصاف کا سامنا کرنے کے لیے برطانیہ واپس لانے کی غرض سے غیر معمولی حد تک جائے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ