رواں ماہ امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز کے دورۂ سعودی عرب کے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ کیا امریکہ اپنے محدود نقطہ نظر سے ہٹ کر بھی مشرق وسطیٰ کے معاملات سے آگاہ ہے۔
اپنے دورے کے دوران سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے مبینہ طور پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو بتایا کہ ریاض کی جانب سے واشنگٹن کے علاقائی مخالفین ایران اور شام کے ساتھ تعلقات کی بحالی سے امریکہ کو ’اندھیرے میں رکھا‘ گیا۔
ان ریمارکس کو اوباما انتظامیہ میں ولیم برنز کے کردار اور ایران کے بارے میں نئی امریکی پالیسی کی تشکیل کے تناظر میں انتہائی ستم ظریفی قرار دیا جا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں واشنگٹن نے عراق (2003 سے) اور افغانستان (2001-2021) میں غلطیاں کیں۔
2009 میں ولیم برنز نے وضاحت کی تھی کہ ایران کو ایک اہم علاقائی کھلاڑی تسلیم کرتے ہوئے، ایرانی حکومت کو نہیں بلکہ اس کے رویے کو تبدیل کرنے کے لیے ’ہمارا بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ایرانی زیادتیوں کو کم کرتے ہوئے ایرانی اثر و رسوخ کے ساتھ رہنے کے لیے ایک طویل مدتی بنیاد تلاش کریں۔‘
ولیم برنز نے 14 سال قبل اس پالیسی کی وکالت کی تھی جو 2023 میں ایران کے بارے میں سعودی نقطہ نظر کے قریب تر ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ امریکہ کسی بیرونی رکاوٹ کے بغیر رابطے کی پالیسی کے ذریعے ایرانی طرز عمل کو تبدیل کرنے کی اپنی صلاحیت میں درحقیت ناتجربہ کار تھا۔
آج، ایران کے بارے میں سعودی نقطہ نظر سے لگتا ہے کہ ایران کے فیصلہ سازی کے عمل پر چین کا اثر و رسوخ اتنا مضبوط ہے کہ بات چیت کی پالیسی کے لیے راہیں کھول سکتا ہے۔
تاہم، سعودی نقطہ نظر صرف اس امید پر مبنی نہیں کہ روابط ایران کی جوہری، فوجی اور علاقائی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔
ڈیموکریٹک اور رپبلکن انتظامیہ کی جانب سے ایران کے متعلق اپنی پالیسیوں میں بار بار تبدیلیوں سے مشرق وسطیٰ میں امریکی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ یوکرین جنگ کی معاشی قیمت، مسئلہ فلسطین کے حل میں ناکامی، نام نہاد عرب سپرنگ کی حمایت اور داخلی انتشار نے علاقائی ممالک میں امریکی ساکھ کو مزید نقصان پہنچایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے مقابلے میں مختلف ممالک کے اندر چینی سرمایہ کاری پر غور کریں، جس نے بیجنگ کے لیے سافٹ پاور سے جغرافیائی معاشیات اور جغرافیائی سیاست کی طرف منتقل ہونے کی راہ ہموار کی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں چین کے عروج کو تمام علاقائی ممالک کے ساتھ بیجنگ کے اقتصادی شراکت داری کے نقطہ نظر سمجھنا ہو گا۔ یہ اقتصادی نقطہ نظر کمزور علاقائی حریفوں جیسا کہ 2001 میں طالبان اور 2003 میں صدام حسین حکومت کے خلاف فوجی طاقت دکھانے کی امریکی پالیسی سے بہت مختلف ہے۔
جیسا کہ رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر نے ٹوئٹر پر وضاحت کی: ’چین نے چالاکی کی بجائے معاشی طاقت دکھا کر امریکی سلطنت کو نکال باہر کیا ہے۔ گذشتہ ایک دہائی میں ہمارے ملک نے سڑکوں، بندرگاہوں، پلوں اور ہوائی اڈوں پر بمباری کرنے میں کھربوں خرچ کیے۔ چین نے اتنی ہی رقم ترقی پذیر ممالک میں ان کی تعمیر پر لگائی۔‘
مزید برآں، اوباما دور (2009-2017) کے بعد سے، مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی کے رد عمل سے واشنگٹن کے علاقائی شراکت دار الجھن کا شکار ہیں۔
نام نہاد ’عرب سپرنگ‘ کے دوران اپنے علاقائی اتحادیوں کے لیے امریکی حمایت کی کمی اور خطے میں سماجی افراتفری کے وقت تہران کے ساتھ مفاہمت کے خیال نے اس کے خلیجی اتحادیوں کی اکثریت کو خودمختاری اور تنوع پر مبنی ایک نئی خارجہ پالیسی ڈھونڈنے پر مجبور کیا۔
جنگوں کے ذریعے خطے کو تبدیل کرنے میں نیو کنزرویٹو ناکامی اور خطے میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کو ترجیح دیے بغیر امریکی اثر و رسوخ کو فروغ دینے کا ڈیموکریٹک نقطہ نظر، دونوں اس کے علاقائی زوال کو تیز کرنے والے عوامل رہے ہیں۔
مزید برآں، براک اوباما کی علاقائی پالیسی جس کی بنیاد خلیجی ریاستوں کے بارے میں تنقیدی نقطہ نظر پر تھی اور ساتھ ہی جارج ڈبلیو بش انتظامیہ کے تحت علاقائی جنگوں نے مشرق وسطیٰ میں امریکی ساکھ کم کی۔
جنگی جنون اور امریکی اخلاقی برتری کے احساس کے علاوہ دنیا بھر، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے وقار پر وہاں کی داخلی بحثوں کے تباہ کن اثرات پر غور کرنا ہو گا۔
ایران کے بارے میں اوباما کے پالیسی جائزے کے بعد سے واشنگٹن اور اس کے علاقائی اتحادیوں کے درمیان ایرانی مسائل پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا، لہٰذا خطے میں اب یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ ڈیموکریٹس کی علاقائی پالیسی کا تعین ان کی اس خواہش سے ہو گا جو کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات کے برعکس کرنے کی ہے۔
اس امریکی داخلی تناظر میں ٹرمپ انتظامیہ کے تحت سعودی امریکہ تعلقات کا مثبت ماحول بائیڈن انتظامیہ کے آغاز میں سرد اور مزید کشیدہ ہو گیا۔
اس تعصب پسندی نے اس علاقائی تاثر کو تقویت دی کہ امریکہ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی، علاقائی مسائل اور خدشات کو حل کرنے کی کسی بھی حقیقی خواہش سے زیادہ داخلی انتشار کی عکاس ہے۔
وہ نقطہ نظر جس کا محور امریکہ ہو، اب اس خطے کے ممالک کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔
اس کے برعکس، افغانستان اور عراق میں امریکہ کی ماضی کی غلطیوں کو دیکھتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ کو چاہیے کہ اپنے علاقائی شراکت داروں سے مشورہ لے تاکہ امریکی اثر و رسوخ کو بہتر بنایا جا سکے اور جنگوں کے بعد کھوئے ہوئے کچھ وقار کو دوبارہ حاصل کیا جا سکے۔
لہٰذا ایرانیوں اور ڈیموکریٹکس کے لیے یہ پہلے سے کہیں زیادہ ضروری لگتا ہے کہ وہ اپنی اندرونی بحثوں سے نکل کر ایک نئی علاقائی پالیسی تشکیل دیں جو خطے کی سماجی و ثقافتی تبدیلی کے عین مطابق ہو۔
یہ واشنگٹن میں سیاسی دھڑوں کے قلیل مدتی اندرونی مفادات کے بجائے سیاسی استحکام اور اقتصادی فائدہ مند نقطہ نظر کی حمایت میں ہونی چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو جغرافیائی سیاست اور سافٹ پاور دونوں کے لحاظ سے چین کا عروج جاری رہے گا۔
اس تحریر کے مصنف ڈاکٹر محمد السلمی بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ فار ایرانی سٹڈیز کے صدر ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔