پاکستان میں جہاں تمام اشیائے ضروریہ مہنگی ہوئی ہیں وہاں سگریٹ کی قیمتوں میں اس سال فروری سے 250 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اس اضافے کی وجہ حکومت کی جانب سے اس سال فروری میں سگریٹ انڈسٹری پر 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کا نفاذ ہے۔ سگریٹ پر سیلز ٹیکس 16 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کر دیا گیا ہے اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 150 فیصد بڑھا دی گئی ہے۔
اس طرح سگریٹ کے وہ برانڈ جن کی قیمتیں پہلے 211 روپے تھیں وہ اب 525 روپے ہو چکی ہیں۔ حکومت کی جانب سے سگریٹ پر ٹیکسوں میں اضافے کے بظاہر دو واضح مقاصد ہیں ایک تو یہ کہ محصولات میں اضافہ کیا جائے کیونکہ پاکستان کو آمدنی میں شدید کمی کا سامنا ہے اور دوسرا مقصد یہ بھی ہے کہ لوگوں کو سگریٹ پینے سے روکا جائے کیونکہ اس سے ان کی صحت شدید متاثر ہوتی ہے۔
سگریٹ صحت کا دشمن
پاکستان کی وزارت صحت کے زیر اہتمام ایک قومی ادارہ پاکستان ٹوبیکو کنٹرول سینٹر کام کرتا ہے جس کی ویب سائٹ کے مطابق دنیا میں سگریٹ نوشی سے سالانہ 80 لاکھ جبکہ پاکستان میں 2017 تک سگریٹ نوشی سے ہونے والے امراض سے سالانہ ایک لاکھ 63 ہزار360 لوگ مر جاتے ہیں۔ جو لوگ تمباکو نوشی کرتے ہیں ان میں سے تقریباً آدھے افراد کو یہ شوق لے ڈوبتا ہے۔
شارق محمود خان تمباکو نوشی کے خلاف کام کرتے ہیں اور اس حوالے سے ایک ٹرسٹ ’کیرومیٹک‘ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان میں سگریٹ نوشی سے صحت عامہ کو سالانہ 650 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے جبکہ حکومت اس انڈسٹری سے گزشتہ مالی سال تک جو ٹیکس اکٹھا کر رہی تھی وہ 150 ارب روپے تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’سگریٹ فروش کمپنیاں کم عمر بچوں کو سگریٹ نوشی پر راغب کرنے کے لیے مارکیٹنگ کر رہی ہیں، وہ دکانوں پر ٹافیوں کے نزدیک سگریٹ رکھواتی ہیں اور سگریٹ کے ڈبے اتنے رنگ برنگ بنواتی ہیں کہ بچے اس جانب راغب ہو جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں روزانہ 1200 بچے سگریٹ نوشی کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگرچہ قانونی طور پر پاکستان میں 18 سال سے کم عمر بچوں کو سگریٹ کی فروخت نہیں ہو سکتی اور سکولوں کے 50 میٹر کے اندر کوئی سگریٹ نہیں بیچ سکتا مگر یہاں قانون تو بن جاتے ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ حالانکہ اس کی خلاف ورزی پر پہلی بار پانچ ہزار روپے جرمانہ ہے اور اگر دوسری بار کوئی دکاندار ایسا کرے گا تو اسے ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ امریکہ میں کم عمر بچوں کو سگریٹ بیچنے سے منع کرنے پر سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے اور اگر دکاندار کو کسی پر شک گزرے تو اس کی آئی ڈی طلب کی جاتی ہے تا کہ عمر معلوم ہو سکے کیونکہ وہاں پولیس مسلسل تعاقب میں رہتی ہے اور پولیس بعض اوقات خود کم عمر لوگوں کو سگریٹ خریدنے بھیج کر دکانداروں کے گرد گھیرا تنگ کرتی ہے۔ جو دکاندار پکڑا جائے اسے ایک سال جیل یا ایک ہزار ڈالر جرمانہ ہوتا ہے مگر یہاں آج تک اس جرم میں کسی ایک کو بھی سزا نہیں ہوئی۔‘
سگریٹ بنانے والی کمپنیاں کیا کہتی ہیں؟
پاکستان میں سگریٹ پر بھاری ٹیکسوں کے نفاذ پر عالمی ادارے بلوم برگ نے بھی وزیراعظم پاکستان کی تعریف کی ہے اور اسے ایک متاثر کن اقدام قرار دیا ہے۔ لیکن دوسری جانب یہ سوال ہے کہ کیا واقعی اس اقدام سے پاکستان میں سگریٹ نوشی کم ہو گئی ہے؟
اس حوالے سے ہم نے پاکستان ٹوبیکو کمپنی کے سینیئر مینیجر قاسم طارق سے رابطہ کیا جنہوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے ٹیکسوں میں ہوشربا اضافے کے بعد یہ توضرور ہوا کہ مقامی طور پر سگریٹوں کی تیاری تقریباً 50 فیصد کم ہو گئی ہے لیکن یہ کہنا کہ سگریٹ نوشی کم ہو گئی ہے، ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اب سمگل سگریٹ کی فروخت جو پہلے کل مارکیٹ کا 32.5 فیصد تھی وہ 67 فیصد ہو چکی ہے۔ گویا صرف مارچ اپریل میں سمگلنگ والے سگریٹ کی فروخت میں 42.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘
قاسم طارق کا کہنا تھا کہ ’جب ملکی سگریٹ مہنگے داموں دستیاب ہوں گے تو پھر غیر قانونی طور پر ملک میں آنے والے سگریٹوں کی طلب بڑھ جائے گی کیونکہ وہ انتہائی سستے داموں ملک بھر میں دستیاب ہیں۔ جس کی وجہ سے قومی خزانے کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا کیونکہ اس وقت ہماری ایک فیکٹری کے آٹھ یونٹ میں سے صرف دو یونٹ کام کر رہے ہیں باقی بند پڑے ہیں۔‘
قومی خزانے کو فائدہ یا نقصان ؟
سگریٹ پر عائد ٹیکسوں میں اضافے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قومی خزانے میں زیادہ رقوم جمع ہوتیں لیکن ایسا نہیں ہو رہا بلکہ حکومت کو سگریٹ انڈسٹری سے جمع ہونے والے ٹیکسوں میں 84 ارب روپے کی کمی ہو گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مہتاب حیدر جو کہ معاشی امور کے تجزیہ کار ہیں، انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت نے اس مالی سال کے دوران سگریٹ پر عائد ٹیکسوں میں تین بار اضافہ کیا جس کے بعد مجموعی طور پر ٹیکسوں میں 200 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔‘
’حکومت کو اس اضافے کے بعد سگریٹ انڈسٹری سے 260 ارب روپے آمدن کی توقع تھی لیکن 15 مئی تک ایف بی آر کو اس مد میں 161 ارب روپے جمع ہوئے ہیں۔ 15 جون تک مزید 15 ارب جمع ہونے کی توقع ہے۔ اس طرح صرف سگریٹ انڈسٹری سے مطلوبہ ٹیکس میں 84 ارب روپے کی کمی ہو رہی ہے جو کہ ایک بہت بڑی رقم ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس کمی کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ کچھ مقامی سگریٹ بنانے والی کمپنیاں ایسی بھی ہیں جو کہ جعلی سگریٹ بنا رہی ہیں۔ وہ بڑے برانڈ ز کے دو نمبر سگریٹ مارکیٹ میں فروخت کر رہی ہیں۔ دوسرے نمبر پر کچھ ملکی کمپنیاں ٹیکس نہیں دے رہیں اور سگریٹ بنا کر فروخت بھی کر رہی ہیں اور تیسرا مسئلہ سمگلنگ کا ہے جو کہ اس انڈسٹری پر ٹیکسوں میں اضافے کے بعد بہت بڑھ گئی ہے۔