یوکرین جنگ پر سعودی عرب میں 40 ملکوں کی بات چیت شروع

امریکہ، چین اور انڈیا سمیت تقریباً 40 ممالک کے اعلیٰ حکام نے یوکرین کے معاملے پر سعودی عرب میں دو روزہ مذاکرات کا آغاز کر دیا۔

19 مئی 2023: سعودی ولی عہد محمد بن سلمان جدہ میں ہونے والے عرب لیگ اجلاس کے دوران یوکرینی صدر وولودی میر زیلینسکی کے ہمراہ(اے ایف پی/ایس پی اے)
 

امریکہ، چین اور انڈیا سمیت تقریباً 40 ممالک کے اعلیٰ حکام نے ہفتے کو یوکرین کے معاملے پر سعودی عرب میں دو روزہ مذاکرات کا آغاز کر دیا۔

کیئف اور اس کے اتحادیوں کو امید ہے کہ ان مذاکرات میں یوکرین میں روس کی جنگ کے پرامن خاتمے کے لیے اہم اصولوں پر اتفاق رائے ہو جائے گا۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ بات چیت یوکرین کی اس سفارتی کوشش کا حصہ ہے کہ وہ اپنے اہم مغربی حامیوں سے آگے جا کر ان عالمی جنوبی ممالک تک رسائی حاصل کرکے ان کی حمایت حاصل کرے جو عالمی معیشت کو متاثر کرنے والے اس تنازعے میں فریق بننے سے گریز کر رہے ہیں۔

یہ واضح نہیں ہے کہ آیا بات چیت کا مقصد مشترکہ بیان تیار کرنا ہے یا نہیں۔ اجلاس میں یوکرین کے سفیر نے کہا کہ بات چیت ’مشکل ہوگی۔‘

یوکرین کے صدر ولادی میر زیلینسکی کے دفتر کے سربراہ سفیر آندرے یرمک نے جمعے کو ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا ’لیکن ہمارے ساتھ سچائی ہے۔ ہمارے ساتھ اچھائی ہے۔‘

سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی ویژن نے ہفتے کی سہ پہر بتایا کہ مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے۔ روس اس میں شرکت نہیں کر رہا تاہم کریملن نے کہا کہ وہ مذاکرات پر نظر رکھے گا۔

یوکرین، روس اور بین الاقوامی حکام کا کہنا ہے کہ جنگ جاری ہے اور اس وقت یوکرین اور روس کے درمیان براہ راست امن مذاکرات کا کوئی امکان نہیں۔

زیلینسکی کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ جدہ میں ہونے والے مذاکرات عالمی رہنماؤں کے امن سربراہی اجلاس کا سبب بنیں گے جس میں تصفیے کے ان کے منصوبے کے اصولوں کی توثیق کی جائے گی جن میں روس کی جانب سے یوکرین کے تمام علاقوں کی واپسی اور تمام روسی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کنندہ سعودی عرب، جس نے گذشتہ فروری میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے دونوں فریقوں کے ساتھ رابطے برقرار رکھے ہوئے ہیں، نے ان ممالک کو بلانے میں کردار ادا کیا جو اس سے پہلے ہونے والے اجلاسوں میں شامل نہیں ہوئے تھے۔

چین، جس نے کوپن ہیگن میں ہونے والے مذاکرات کے گذشتہ دور میں شرکت نہیں کی تھی، نے ہفتے کو کہا کہ وہ یوریشین امور کے خصوصی ایلچی لی ہوئی کو مذاکرات میں شرکت کے لیے بھیج رہا ہے۔

چین نے تنازع شروع ہونے کے بعد سے روس کے ساتھ قریبی اقتصادی اور سفارتی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ وہ ماسکو کی مذمت کا مطالبہ مسترد کر چکا ہے۔

زیلینسکی نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ مذاکرات عالمی رہنماؤں کے امن سربراہ اجلاس کا سبب ہوں گے تاکہ ان کے منصوبے کے  اصولوں کی توثیق کی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے درمیان بہت سے اختلافات ہیں اور ہم نے مختلف موقف سنا ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ ہمارے اصول مشترکہ ہوں۔‘

ریاض میں انڈین سفارت خانے نے ہفتے کو سوشل میڈیا پربتایا کہ انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول بھی بات چیت کے لیے جدہ پہنچ چکے ہیں۔

چین کی طرح انڈیا نے بھی روس کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں اور یوکرین کے خلاف اس کی مذمت کرنے سے انکار کر چکا ہے۔ انڈیا نے روسی تیل کی درآمد بڑھا دی ہے۔

 

سعودی سفارت کاری

مغربی حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں چین کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے سعودی سفارت کاری اہم رہی ہے۔

ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب نے عالمی سطح پر بڑا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کے پرانے فریم ورک سے باہر نکل کر بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے پر زور دیا ہے۔

ریاض نے حالیہ برسوں میں ماسکو کے ساتھ تیل کی منڈی کی پالیسی پر کام کیا ہے اور ترکی کے ساتھ مل کر اس نے گذشتہ سال یوکرین اور روس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے میں ثالثی میں مدد کی تھی۔

زیلنسکی نے گذشتہ سال سعودی عرب میں عرب لیگ کے سربراہ اجلاس میں شرکت کی جہاں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جنگ میں ثالثی کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔

دوسری جانب چین کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ یوکرین کے معاملے پر جدہ میں ہونے والے امن مذاکرات میں چین بھی شرکت کرے گا۔ اس اجلاس میں چین کی نمائندگی نمائندہ خصوصی لی ہوئی کریں گے۔

عرب نیوز کے مطابق چینی وزارت کے ترجمان وانگ وین بن نے جمعے کو پریس بریفنگ میں کہا: ’چین بحران کے سیاسی حل کو فروغ دینے میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔‘

کیئف اور مغربی سفارت کاروں کو امید ہے کہ قومی سلامتی کے مشیروں اور تقریباً 40 ممالک کے دیگر اعلیٰ حکام کی جدہ میں ہونے والی ملاقات میں مستقبل میں مسٔلے کے پرامن تصفیے کے لیے کلیدی اصولوں پر اتفاق کیا جائے گا۔

اس اجلاس میں چین کی شرکت مملکت کے لیے ایک سفارتی فتح مانی جا رہی ہے کیونکہ چین کو جون میں کوپن ہیگن میں ہونے والے مذاکرات کے پچھلے دور میں مدعو کیا گیا تھا لیکن بیجنگ نے اس اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔

اس اجلاس کے انعقاد پر ایک جرمن عہدے دار کے بیان میں کہا گیا کہ’ سعودی سفارت کاری نے بیجنگ کو جدہ مذاکرات میں شرکت کے لیے قائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔‘

سعودی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے نے رپورٹ کیا کہ ’مملکت کو توقع ہے کہ یہ مذاکرات سیاسی اور سفارتی ذرائع سے بحران کے حل کو یقینی بنانے کے لیے بات چیت اور تعاون کو تقویت دیں گے۔‘

جدہ کے اس اجلاس کے حوالے سے یوکرین اور مغربی حکام کا کہنا ہے کہ ’ریاض عالمی منظر نامے میں ایک نمایاں سفارتی کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔‘

واشنگٹن میں سٹیمسن سینٹر میں چائنا پروگرام کے ڈائریکٹر یون سن کہتے ہیں کہ ’جدہ اجلاس بیجنگ کے لیے سعودی عرب کی میزبانی زیادہ قابل قبول ہے کیونکہ اسے مغرب کے جانب دار کے طور پر نہیں دیکھا جائے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ادھر یورپی یونین کے ایک سینیئر عہدے دارکا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے ’دنیا کے ان سٹیک ہولڈرز کو اکھٹا کیا ہے جہاں (یوکرین کے) اتحادی اتنی آسانی سے نہیں مل پاتے۔‘

10  نکاتی فارمولا

دوسری جانب یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی نے بدھ کو کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ یہ اقدام رواں موسم خزاں میں دنیا بھر کے رہنماؤں کی ایک ’امن سربراہی کانفرنس‘ کی صورت میں سامنے آئے گا جس میں ان اصولوں کی توثیق کی جائے گی جو کہ تصفیہ کے لیے ان کے اپنے 10 نکاتی فارمولے پر مبنی ہے۔

تاہم مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں صدر زیلنسکی کے تمام نکات کی توثیق کا امکان بہت کم ہے لیکن وہ کم از کم اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت علاقائی سالمیت میں درج اصولوں کی واضح حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

امریکہ اور اس کے اتحادی بھی بیجنگ کی زیرقیادت امن اقدام کو قبول کرنے کے بارے میں محتاط رہے ہیں اور تجزیہ کاروں کو شبہ ہے کہ چین اس کانفرنس میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی کوشش کرے گا۔

سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں مشرق وسطیٰ کے پروگرام کے سربراہ جون الٹرمین کا کہنا ہے: ’میں چینیوں کو کسی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے نہیں دیکھ رہا۔ بیجنگ کی شرکت ممکنہ طور پر اپنے وقار اور مشرق وسطیٰ اور گلوبل ساؤتھ ممالک کے سامنے اپنا قد کاٹھ پیش کرنے کے لیے ہے۔‘

گلوبل ساؤتھ ممالک پر دباؤ ڈالنے کی کوشش میں مغربی حکام نے کہا کہ وہ اس بات پر زور دیں گے کہ روس کی جانب سے بحیرہ اسود کے ذریعے یوکرین کے اناج کو محفوظ طریقے سے گزرنے کی اجازت دینے اور یوکرین کی بندرگاہوں پر فضائی حملے کیے جانے کے بعد سے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

یورپی یونین کے ایک اور سینیئر عہدے دار نے کہا: ’ہم یقینی طور پر اس بات کو جدہ اٹھائیں گے اور سب پر واضح کریں گے۔‘

مذاکرات کی تیاری کے دوران یوکرین نے بحیرہ اسود پر روسی بحری اہداف کے خلاف ڈرون حملہ کیا جس سے جنوبی روسی بحری اڈے میں لنگر انداز ایک جہاز کو نقصان پہنچا۔

یوکرین کے ایک سکیورٹی ذرائع نے کہا کہ اس کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ یوکرین اس زون میں کسی بھی روسی جنگی جہاز پر حملہ کر سکتا ہے۔

یوکرین کی وزارت خارجہ نے ایک فوجی جہاز کی ویڈیو فوٹیج شائع کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک اور روسی جہاز تباہ ہونے کے دہانے پر ہے۔‘

حملے کے بعد یوکرین کے صدارتی معاون میخائیلو پوڈولیاک نے کہا: ’بحیرہ اسود میں روسی بحری بیڑے کی موجودگی کو ختم کر دیا جائے گا اور یوکرین عالمی تجارت کے لیے بحیرہ اسود میں آزادی اور سلامتی کو یقینی بنائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا