یورپی اقوام کی نوآبادیاتی پالیسی کے دو اہم ستون تھے۔ تہذیبی مشن اور سفید فام نسل کی برتری۔ نسلی تعصب کے بارے میں انیسویں صدی میں اس کو سائنسی اور فلسفیانہ بنیادیں فراہم کی گئیں۔ کھوپڑیوں کے سائز اور ناک کی لمبائی سے برتر اور کمتر نسل کا معیار مقرر کیا گیا۔
چارلس ڈارون (وفات 1882) اور ہربرٹ سپینسر (وفات 1903) نے مشترکہ طور پر ارتقا کا نظریہ پیش کیا، جس کا ایک جزو Survival of the fittest تھا۔ مغربی دانشوروں اور ملکوں نے اس کا اطلاق انسانی معاشروں پر کر کے نسل پرستی کو ہوا دی اور اسی کی بنیاد پر یورپی اقوام نے جب افریقہ اور ایشیا میں اپنی کالونیز بنائیں تو مقامی باشندوں کو کمتر نسل کا ثابت کر کے اپنے اقتدار کا جواز فراہم کیا۔
نسل پرستی کے تحت یہ اس کے حق میں نہیں تھے کہ مقامی باشندوں سے شادیاں کر کے اپنی نسل کو ’آلودہ‘ کریں، لیکن اگر ’دوغلی نسل‘ کے بچے پیدا ہو گئے تو ان کو سفید فام نسل میں جگہ نہیں دی گئی۔
ہندوستان میں انگریزوں نے اپنے ابتدائی دور میں ہندوستانی عورتوں سے شادیاں کیں، لیکن جب ان کا اقتدار مستحکم ہو گیا تو اینگلو انڈین کو مساوی درجہ نہیں دیا گیا۔ انتظامیہ اور اونچے عہدوں پر بھی انہیں فائز نہیں کیا گیا۔ ان کی بیروزگاری کا اس وقت خاتمہ ہوا جب ہندوستان میں ریلوے شروع ہوئی۔ اس میں اینگلو انڈینز کو ملازمتیں دے کر ریلوے کا شعبہ ان کے حوالے کر دیا۔
نسل پرستی کی بنیاد پر انگریزوں نے خود کو مقامی باشندوں سے دور رکھا۔ ان کے اپنے کلب تھے۔ جہاں ہندوستانیوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ اپنی محفلوں میں بھی وہ مقامی باشندوں کو دعوت نہیں دیتے تھے۔
انگریزی حکومت کے لیے یہ مسئلہ بھی نسل پرستی سے منسلک ہو گیا کہ کسی انگریز مجرم کو انگریز جج کی عدالت ہی میں پیش کیا جاتا تھا۔ جب انگریز مجرموں کی تعداد بڑھی تو یہ فیصلہ ہوا کہ ان کو مقامی قیدیوں کے ساتھ رکھنے کے بجائے ان کے لیے علیحدہ سے قید خانے تعمیر کرائے جائیں جو پُرفضا مقامات پر ہوں تاکہ وہ گرمیوں کی تپش سے محفوظ رہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نسل پرستی کو انتہا جنوبی افریقہ میں تھی جہاں اپارٹ ہائیڈ یعنی سفید نسل پرستی کے نام پر ریاست کو قائم کیا گیا تھا اور جو قوانین بنائے گئے تھے وہ مقامی افریقی باشندوں کے لیے باعث ذلت تھے۔
وہ شہروں میں آ کر آباد نہیں ہو سکتے تھے۔ ان کے علاقے سفید فام لوگوں سے علیحدہ تھے۔ شہروں میں نچلے درجے کے کام کرنے آتے تھے اور سر شام واپس چلے جاتے تھے۔ پوسٹ آفس میں سفید فام اور افریقیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ کھڑکیاں تھیں، باغوں میں بھی ان کے لیے علیحدہ علیحدہ بینچیں ہوا کرتی تھیں۔
جنوبی افریقہ میں نسل کی بنیاد پر تین طبقے تھے۔ سب سے اوپر سفید فام دوسرے درجے پر ہندوستانی آباد کار اور تیسرے درجے پر مقامی افریقی۔ ان تینوں نسلوں کے قیدیوں کے ساتھ بھی علیحدہ علیحدہ برتاؤ ہوتا تھا۔
افریقی قیدیوں کو گھٹنوں سے اوپر نیکر پہنایا جاتا تھا۔ ہندوستانی قیدیوں کو گھٹنوں سے نیچے تک پتلون پہننے کی اجازت تھی۔ سفید فام قیدی پوری پتلون پہنتے تھے۔ تینوں قسم کے قیدیوں کے لیے کھانا اور ناشتہ بھی مختلف ہوتا تھا۔ ناشتے میں انڈا صرف سفید فام قیدیوں کو ملتا تھا۔ نسلی قوانین کی خلاف ورزی پر سخت ہرجانے ادا کرنا ہوتے تھے۔
آسٹریلیا کی کالونی میں ابتدا ہی سے انگریزوں کا قبضہ رہا تھا۔ برطانوی حکومت یہاں بطور سزا مجرموں کو بھیج دیا کرتی تھی جو محنت و مشقت کے کام کیا کرتے تھے۔ جب آبادی میں اضافہ ہوا تو مقامی باشندوں کے ساتھ سفید فام نسل کے لوگوں نے میل ملاپ نہیں کیا، لیکن آگے چل کر ایک نئے فارمولے پر عمل کرنے کی کوشش کی گئی۔
وہ یہ تھا کہ مقامی باشندوں کے بچوں کو لا کر سفید فام ہوسٹلز اور سکولوں میں رکھا جائے، تاکہ وہ اپنا کلچر چھوڑ کر سفید فام کلچر کو اختیار کر لیں۔ لیکن یہ فارمولا کامیاب نہیں ہو سکا۔ کچھ بچے بھاگ کر واپس چلے گئے اور کچھ کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ اسی فارمولے پر کینیڈا نے بھی خاموشی سے عمل کیا۔
اس کا پتہ حال ہی میں چلا جب ایک سکول میں زیر زمین قبرستان سے 150 اسکیمو نسل کے بچوں کی لاشیں دریافت ہوئیں۔ آسٹریلیا میں یہ تجربہ بھی کیا گیا کہ سفید فام مردوں اور مقامی عورتوں کے درمیان شادی کرا کے ایک نئی نسل پیدا کی جائے، لیکن آسٹریلیا میں بھی سیاسی طور پر سفید فام نسل کا تسلط ہے۔
جاپان نے ترقی کے لیے یورپی ماڈل کو اختیار کیا۔ جمہوری ادارے قائم کیے اور صنعتی میدان میں ترقی کی۔ نتیجتاً جاپان ایک فوجی طاقت بن کر اُبھرا۔ اس کی طاقت کا اظہار جب ہوا جب 1906 میں اس نے ایک بحری جنگ میں روس کو شکست دی۔ لہٰذا فوجی معاشی اور سیاسی طاقت کے ساتھ ہی اس میں یہ خواہش اُبھری کہ وہ یورپی ملکوں کی طرح کلونیل طاقت بھی بنے۔
لہٰذا جاپان نے بھی خود کو نسلی طور پر برتر اور مہذب کہہ کر چین اور جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں کو پسماندگی کا الزام دے کر انہیں اپنی کالونیز بنانا چاہا۔ 1930 کی دہائی میں اس نے چین پر حملہ کیا اور وہاں خونریزی اور قتل عام کے لیے اپنی تہذیبی برتری کو ثابت کیا۔ اس نے تائیوان کے جزیرے پر بھی قبضہ کیا اور کوریا کو اپنی کالونی بنایا۔
جاپانیوں نے اپنے حملوں کی صورت میں شکست خوردہ قوموں کے ساتھ ظالمانہ اور بہیمانہ سلوک کر کے اپنی تہذیبی برتری کی نفی کی۔ کوریا میں اس نے ’عورتوں کو جاپانی سولجروں کی جنسی ہوس پورا کرنے کے لیے استعمال کیا، اور انہیں Comfort Women کا نام دیا۔
اگرچہ نوآبادیاتی دور کا عہد تو ختم ہوا اور عالمگیریت کا پھیلاؤ ہے لیکن ان تبدیلیوں کے باوجود نسلی تعصب آج بھی باقی ہے۔ افریقی نسل کے جو لوگ امریکہ میں آباد ہیں یا ترک جو جرمنی میں بحیثیت مزدور گئے تھے، برطانیہ اور فرانس میں ایشیائی اور افریقی باشندے سخت نسلی تعصبات کا شکار ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سفید فام نسل کی برتری کو قائم رکھنے کے لیے ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کو نئے حربوں کے ساتھ انہیں احساس کمتری میں مبتلا کر کے ان پر اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔