امریکی محکمہ خارجہ (سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ) کے ترجمان میتھیو ملر نے پیر کو کہا ہے کہ امریکہ ہر قسم کی پرتشدد انتہا پسندی کے مقابلے کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں پریس بریفنگ کے دوران پاکستان میں 29 ستمبر کو ہونے والے خود کش دھماکوں کے حوالے سے کیے گئے ایک سوال کے جواب میں کیا۔
پریس بریفنگ کے دوران میتھیو ملر سے سوال کیا گیا کہ ’پاکستان میں حالیہ خودکش حملے میں 50 سے زیادہ اموات ہوئیں، جن میں بچے بھی شامل تھے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور داعش ہمیشہ اس طرح کے حملوں کی ذمہ داریاں قبول کرتی ہیں۔
’ہم نے بائیڈن انتظامیہ کے عہدیداروں کے متعدد بیانات سنے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کی اپنی صلاحیت برقرار رکھے گا۔ تو امریکہ کو افغانستان میں ٹی ٹی پی اور داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے سے کیا چیز روکتی ہے؟‘
اس کے جواب میں میتھیر ملر نے ایک بار پھر پاکستان میں 12 ربیع الاول کے جلوس پر ہونے والے حالیہ خودکش حملوں پر گہرے دکھ اور ہمدردی کا اظہار کیا اور کہا: ’پاکستانیوں نے دہشت گردوں کے حملوں سے بے پناہ نقصان اٹھایا ہے۔ وہ بغیر کسی خوف کے اپنے عقیدے پر عمل کرنے کے مستحق ہیں۔
’ہم یقیناً ان خاندانوں سے تعزیت کرتے ہیں جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔‘
ترجمان میتھیو ملر نے مزید کہا: ’میں دہشت گردی کے خلاف تعاون کے حوالے سے کہوں گا کہ ہم دہشت گردوں کی عالمی فہرست اور دہشت گرد گروپوں کو شکست دینے کی عالمی حکمت عملیوں سمیت متعدد مسائل کے حوالے سے کثیر الجہتی فورمز پر پاکستان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا: ’اس سال کے شروع میں ہم نے اپنے دونوں ممالک (پاکستان اور افغانستان) کو درپیش مشترکہ دہشت گردی کے خطرات پر تبادلہ خیال کرنے اور سرحدی سلامتی اور دہشت گردوں کی مالی معاونت جیسے شعبوں میں تعاون کے لیے حکمت عملیوں پر کام کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطح کے انسداد دہشت گردی ڈائیلاگ کا انعقاد کیا۔
’اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ہم ہر قسم کی پرتشدد انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کی کوششوں میں بہتر مدد کر سکتے ہیں، پاکستان کے ساتھ کام جاری رکھیں گے۔‘
پاکستان میں حالیہ مہینوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جمعے (29 ستمبر) کو بلوچستان کے ضلع مستونگ میں عید میلاد النبی کے جلوس پر اور خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو کی ایک مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکوں میں کم از کم 60 اموات ہوئی تھیں جبکہ متعدد افراد زخمی ہوئے تھے۔
ان حملوں کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ کی جانب سے قبول نہیں کی، تاہم ٹی ٹی پی نے اپنے بیان میں ان کی مذمت کی تھی۔
29 ستمبر کو ہی ژوب میں بھی پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے قریب سکیورٹی فورسز سے فائرنگ کے تبادلے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے تین شدت پسند مارے گئے تھے جبکہ چار اہلکار بھی جان سے گئے۔
سینڑ فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز (سی آر ایس ایس) نامی پاکستانی تھنک ٹینک نے 30 ستمبر کو جاری کی گئی اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ رواں سال کے پہلے نو ماہ میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے کم ازکم 386 ارکان جان سے گئے۔ یہ تعداد اس عرصے میں ہونے والی کُل اموات کا 36 فیصد ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپورٹ کے مطابق سال 2023 کے ابتدائی نو ماہ میں فوج کے 137 اور پولیس کے 208 اہلکار جان سے گئے جبکہ ’اموات کی یہ تعداد گذشتہ آٹھ سال میں سب سے زیادہ‘ ہے۔ رپورٹ کے مطابق اموات کی ’یہ تعداد 2016 کی سطح سے تجاوز کر گئی ہے اور 2015 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔‘
سی آر ایس ایس کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’تشدد کا سب سے زیادہ نقصان اس سہ ماہی میں شہریوں کو ہوا جو سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ مجموعی اموات میں تقریباً 58 فیصد شہریوں کی ہوئیں۔
’اس کے بعد سکیورٹی اہلکاروں کو تقریباً 23 فیصد جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ قانون شکنوں کو سب سے کم نقصان اٹھانا پڑا جو اس عرصے میں ہونے والی تمام اموات کا صرف 20 فیصد ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کو ’پراکسی دہشت گردی‘ کا سامنا ہے جو زیادہ تر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جاری ہے۔
نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے 30 ستمبر کو کوئٹہ میں ایک بیان میں کہا تھا کہ ’داعش ہو یا ٹی ٹی پی ہمارے لیے سب ایک ہیں۔ ان سب کو ایک جگہ سے ہینڈل کیا جا رہا ہے۔‘
جبکہ 30 ستمبر کو ہی پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے مستونگ حملے کے بعد کوئٹہ کا دورہ کیا تھا۔ اس موقعے پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس دہشت گردی کو بیرونی ریاستی سرپرستوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔‘
آرمی چیف نے مزید کہا تھا کہ ’دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بلا تعطل جاری رہے گا۔‘