معروف سماجی کارکن جبران ناصر ایک مرتبہ پھر انتخابی میدان میں بطور آزاد امیدوار اترے ہیں۔ آٹھ فروری کے انتخابات میں وہ کراچی کے ضلع جنوبی کے حلقے پی ایس 110 سے صوبائی اسمبلی کی نشست سے کے لیے مائیک کے نشان کے ساتھ الیکشن لڑ رہے ہیں۔
انتخابی نشان مائیک چننے پر ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں بولنے پر ہی قدغنیں ہیں اور لوگوں کو بولنے کی سزا کے طور اٹھایا اور غائب کیا جاتا ہے۔‘
سیاست میں آنے کا مقصد بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ آئین کے تحت ایوانوں میں جا کر عوام کی آواز بننا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں جیتنے کی صورت میں بطور آزاد رکن سندھ اسمبلی جمہوریت کو بااختیار بناؤں گا اور لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کروں گا۔‘
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ’عام آدمی مسائل کے حل کے لیے رل گیا ہے کیوں کہ منتخب نمائندے ان کے ہاتھ نہیں آتے۔
’انتخابات میں جیتنے کے بعد نمائندے صرف جنازوں اور شادیوں میں ہی لوگوں کو نظر آتے ہیں اور ان دونوں مواقع پر مسائل کا ذکر ممکن نہیں ہوتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہر حلقے کے ووٹروں کے لیے ایک موبائل ایپلی کیشن بنانی چاہیے، جسے استعمال کر کے منتخب نمائندے سے براہ راست رابطہ کر کے اپنے مسائل ان تک پہنچا سکیں۔
’میں فروری کے انتخابات میں کامیاب ہونے کی صورت میں بطور ایم پی اے ایسی ایک موبائل ایپ لانچ کروں گا، جس کے ذریعے کوئی بھی مجھ سے رابطہ کر سکے گا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ایپ پر ہر رابطہ کرنے والے کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہر ادارے کے پاس جائیں گے۔ ہر شکایت رجسٹر ہو گی اور اس کا ریکارڈ بھی موجود ہو گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جبران ناصر کا کہنا تھا کہ 2018 کے انتخابات میں اپنی شکست سے مایوس نہیں ہوئے تھے۔
’یہ عوام کا حق ہے کہ اپنی بہتری کے لیے وہ کسے چنتے ہیں۔ میں عوام کے ووٹ کی قدر کرتا ہوں لیکن میں کسی کو جتاؤں گا نہیں کہ میں نے اتنا کام کیا تو مجھے ووٹ کیوں نہیں ملا۔
’میں عوام کی خدمت کے لیے سیاست میں آیا ہوں اور اپنے اس فیصلے پر پوری طرح قائم ہوں۔‘
ایک سوال کے جواب میں سوشل ورکر جبران ناصر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انتخابات کے نام پر محض ایک مشق ہوتی ہے۔
’500 ووٹوں کی بنیاد پر بلوچستان کا وزیر اعلی منتخب ہو جاتا ہو تو یہ کون سا الیکشن ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ’آٹھ فروری کو بھی انتخابات کے نام پر مشق ہی ہو گی۔ مجھے شفاف الیکشنز کی کوئی امید نہیں۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔