انڈپینڈنٹ اردو کی سیریز ’ریل ریل میں‘ شروع کرنے سے ایک رات پہلے بستر پر لیٹا پتہ ہے میں کیا سوچ رہا تھا؟
’کوئی بات نئیں یار، ہمت کر، یاد ہے تو جدہ گیا تھا پچھلے سال، ادھر سے واپس آ کے بھی ایک دن ایسے ہی لیٹا تھا اور سوچتا تھا کہ یہ دو ہفتے کیسے نکل گئے؟ یہ ٹور بھی ایسے ہی گزر جائے گا۔‘
میں سست آدمی ہوں، سفر پہ نکلنے سے پہلے گھبراتا ہوں، آدھے سفر میں طبیعت فٹ ہو جاتی ہے۔ اس بار لیکن اس لیے زیادہ پریشان تھا کہ سہیل بھائی جانے سے انکار کر چکے تھے۔ ان کی طبیعت گڑبڑ تھی۔
ایک دن پہلے سہیل بھائی راضی ہو گئے لیکن بھائی خود ان فٹ ہو گیا، اصل میں ساری کشمکش یہی چل رہی تھی کہ استاد کام تو کرنا ہے لیکن کیسے؟
پھر وہی ہوا، سارا سفر گزر گیا، آٹھ قسطیں مکمل ہوئیں الحمدللہ، واپس پہنچا، بستر میں لیٹا اور سوچنے لگا کہ ’دیکھ یہ بھی ہو گیا، سفر سے نہ گھبرایا کر۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پشاور سے کراچی تک ہم دونوں گھومے، پہلے لوگ کہتے تھے حکومتیں نوکریاں دیں، روٹی سستی کریں، سر چھپانے کی جگہ ہو، اس مرتبہ سب سے تکلیف دہ مشترک بات یہ تھی کہ بجلی اور گیس کے بل کم کر دیں، باقی چیزیں ہم خود ٹھیک کر لیں گے۔ یعنی اچھے کی امید ختم ہے، سو پیاز کھلائیں، سو باری لتر مار لیں مگر تھوڑا ہلکے سے ماریں، اب بس یہ آرزو باقی ہے۔
میری اور سہیل بھائی کی مشترکہ آبزرویشن یہی تھی جو کچھ انتخابات میں سامنے آیا۔ خیبر پختونخواہ سے سطح سمندر تک صرف پی ٹی آئی تھی کہ جس کے بارے میں لوگ بولنا چاہتے تھے اور کھل کر نہیں بولتے تھے۔
کراچی میں ایم کیو ایم کی ہوا بنی ہوئی تھی، اس کا نتیجہ بھی حسب توقع ہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی ۔۔۔ ان دو جماعتوں کے فالورز اتنے زیادہ نہیں ملے جتنے بہرحال ووٹ پڑ گئے، جو کچھ ہم دیکھ چکے ہیں ان دو ہفتوں کے دوران، اس حساب سے یہ ٹرن اوور دونوں جماعتوں کے لیے بہت غنیمت ہے۔
اس سفر میں کون لوگ ہمیں یاد رہ گئے، کون خدائی مدد کی صورت ملے کراچی کی بارش نے کیسے خوار کیا اور کیا کیا کچھ ہوا، اگر آپ دلچسپی رکھتے ہیں تو ہماری گپ شپ اس ویڈیو میں دیکھیے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔