فضل الرحمٰن کا باجوہ، فیض سے متعلق بیان سیاسی مایوسی کا نتیجہ؟

تجزیہ کاروں کے مطابق ’مولانا فضل الرحمٰن انتخابات میں جے یو آئی کی شکست پر سیاسی مایوسی کا شکار ہیں۔ کبھی وہ مبینہ دھاندلی کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کرتے ہیں کبھی انہی پی ٹی آئی رہنماوں سے ملاقات کرتے ہیں جن سے ہارے ہیں۔‘

مولانا فضل الرحمٰن بدھ آٹھ نومبر 2023 کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے (انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان میں ساسی بحران عام انتخابات کے بعد بھی نہ تھم سکا جس کی اہم وجہ اکثر سیاسی جماعتوں کی طرف سے لگائے جانے والے دھاندلی کے الزامات ہیں۔

اس صورت حال میں سابق حکومتی اتحاد کے سرکردہ رہنما صدر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے پہلے تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا۔

پھر انہوں نے حال ہی میں ٹی وی چینلز پر بیان دیا کہ ’عمران حکومت کے خلاف عدم اعتماد سابق آرمی چیف جنرل (ریٹائرڈ) قمر جاوید باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کے کہنے پر لائی گئی وہ ہم سے رابطے میں تھے ہمیں کہا گیا جو کرنا ہے سسٹم میں رہتے ہوئے کریں۔‘

ان کے اس بیان پر ان کی سابق اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

تاہم صحافی انصار عباسی کی جمعے کی خصوصی خبر میں سابق آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کے قریبی ذرائع کے حوالے سے مولانا کے بیان کی سخت تردید سامنے آئی ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما ملک احمد خان نے اپنے بیان میں کہا کہ ’مولانا کا سابق فوجی قیادت کے عدم اعتماد میں کردار سے متعلق بیان غلط ہے اگر ثبوت ہیں تو سامنے لائیں۔ کیونکہ تمام پارٹی سربراہوں کے اجلاس میں جنرل باجوہ نے تحریک عدم اعتماد لانے سے منع کیا تھا۔‘

پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’بقول مولانا سابق حکومت کے خلاف عدم اعتماد جرنیلوں کے کہنے پر لائی گئی، مولانا یہ بھی بتائیں کہ اس حکومت کے خاتمے کے بعد سب سے زیادہ مستفید ہونے والا کون تھا۔‘

دوسری جانب تجزیہ کاروں کے مطابق ’مولانا فضل الرحمٰن انتخابات میں جے یو آئی کی شکست پر سیاسی مایوسی کا شکار ہیں۔ کبھی وہ مبینہ دھاندلی کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کرتے ہیں کبھی انہی پی ٹی آئی رہنماوں سے ملاقات کرتے ہیں جن سے ہارے ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں مولانا کی ماضی میں سیاست کو مد نظر رکھا جائے تو وہ عدم اعتماد کی تحریک سے متعلق جرنیلوں کی مداخلت سے اپنا سیاسی ریٹ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں شاید اقتدار میں وہ حصہ ملتا دکھائی نہیں دے رہا جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔

مولانا کے جرنیلوں سے متعلق بیانات کا مقصد؟

اس سوال کے جواب میں سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کے سیاسی کردار کو دیکھا جائے تو مولانا فضل الرحمٰن ہمیشہ اقتدار کے ساتھ ہی کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔

’چاہے مشرف کا مارشل لا ہو یا اس کے بعد بننے والی حکومتیں ان کا حکومت میں کردار رہا ہے۔ عمران حکومت کے خلاف جس عدم اعتماد کی تحریک میں وہ جنرل باجوہ اور فیض کا کردار بتا رہے ہیں۔ وہ انہیں اڑھائی سال بعد کیوں یاد آیا اور جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا وہ اس وقت پی ڈی ایم کے سربراہ تھے۔ اس کے بعد بننے والی اتحادی حکومت میں بھی مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت کو وزارتیں، گورنر خیبر پختونخوا کے عہدے ملے۔‘

سلمان کے بقول، ’اگر مولانا سیاسی طور پر کچھ غلط سمجھ رہے تھے تو اسی وقت اختلاف کر کے علیحدہ ہو سکتے تھے۔ اب وہ اس طرح کی باتیں اس لیے کر رہے ہیں کہ شاید انہیں یقین تھا کہ صدر مملکت سمیت انہیں وفاقی حکومت، کے پی اور بلوچستان حکومت میں مرکزی کردار ملے گا۔ لیکن مایوس کن نتائج کے بعد انہیں یہ خواہش پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ’اگر مولانا اس پوزیشن میں ہوتے کہ وہ کسی پر اثر انداز ہوسکتے تو یہ لائن اختیار نہ کرتے۔ وہ ایک ملاقات کا تو ذکر رہے ہیں مگر اس ملاقات کا ذکر نہیں کر رہے جس میں انہوں نے اسلام آباد دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔‘

تجزیہ کار وجاہت مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے ملک کے جو مداخلت کار حلقے ہیں وہ منقسم دکھائی دیتے ہیں۔ سیاستدان بھی تقسیم کا شکار ہیں اور اس صورت حال میں ہر کوئی اپنے پتے پھینک رہا ہے۔ نہلے پر دہلا پھینکنے کا مقصد ایک دوسرے کا کھیل بگاڑنے کی کوشش ہے۔ یہ انتخابی نتائج میں بھی ظاہر ہے اور جو انتخابی نتائج کے بعد ہوا اس میں بھی ظاہر ہے۔ فیصلہ سازی میں کہیں یکسوئی نہیں ہے۔ جس کا نتیجہ افراتفری، قیاس یا انتشار کی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے اور وہی ہو رہا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وجاہت کے بقول، ’مولانا کی سیاست ختم ہو رہی ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا عوامی رابطہ کم ہو رہا ہے۔ لہذا ان کی یہ جو سیاسی قلابازیاں ہیں یہ مایوسی کی علامت ہیں اس سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔‘

جے یو آئی کا پی ٹی آئی سے اتحاد ہو پائے گا؟

موجودہ سیاسی منظر نامے میں ماضی کی بد ترین مخالف جماعتوں تحریک انصاف اور جے یو آئی کے مبینہ انتخابی دھاندلیوں سے متعلق ملاقات سے ہلچل مچی ہے۔

 گذشتہ روز بدھ کی شام بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر اسد قیصر کی سربراہی میں مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات سے ممکنہ حکومتی اتحادی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی تو حیران ہوئے ہی ہیں سوشل میڈیا پر بھی بحث و مباحثہ جاری ہے۔

سوشل میڈیا صارفین ماضی میں عمران خان کے مولانا فضل الرحمٰن سے متعلق بیانات جبکہ کئی مولانا کے عمران خان پر تنقید پر مبنی بیانات کی ویڈیوز بھی شیئر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

تجزیہ کار سلمان غنی کے بقول، ’پی ٹی آئی اور مولانا کے درمیان انتخابی دھاندلی کے خلاف اتحاد اتنا آسان نہیں ہوگا۔ کیونکہ ماضی میں جس طرح دونوں قائدین ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کرتے رہے ہیں ان پر کارکن سوال ضرور کریں گے۔

’اب زمانہ بدل گیا ہے اب کارکن قیادت سے سوال ضرور پوچھتے ہیں۔ مولانا کے حامی یہ نہیں پوچھیں گے کہ عمران خان کو آپ یہودی ایجنٹ کہتے رہے تو وہ ایجنٹ نہیں رہے؟‘

انہوں نے کہا کہ ’مولانا صاحب جس صوبے کے پی میں دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں وہاں دو تہائی اکثریت تو پی ٹی آئی نے لی ہے۔ حتیٰ کہ ان سے آبائی نشست ڈیرہ اسماعیل خان میں علی امین گنڈا پور جیتے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا وہاں پی ٹی آئی کے لیے دھاندلی کی گئی۔ اگر انہیں ضرب پہنچی ہے تو وہاں سے پہنچی ہے۔ لہذا میں پہلے بھی کہتا رہا ہوں اب بھی کہتا ہوں کہ مولانا گیلی جگہ پاؤں نہیں رکھتے۔ وہ صرف اپنا وزن بڑھا رہے ہیں کیونکہ وہ اقتدار میں رہنے کے عادی ہیں، اپوزیشن نہیں کر سکتے۔ انہیں کے پی کی گورنر شپ عزیز ہے، جو انہیں شہباز شریف حکومت میں مل سکتا ہے وہ کہیں اور سے نہیں مل سکتا۔‘

تجزیہ کار نے کہا کہ مولانا اب بھی وہ توقع نواز شریف سے لگا رہے ہیں کیونکہ ’نواز شریف بھی ان کی طرح زخمی ہیں البتہ وہ مولانا کی طرح بول نہیں سکتے۔‘

وجاہت مسعود کے بقول اول تو پی ٹی آئی اور جے یو آئی کا اتحاد غیر فطری ہے اس لیے ہونا مشکل ہے۔ دوسرا یہ کہ تحریک انصاف انہیں کبھی خیبر پختونخوا میں شریک اقتدار نہیں کرے گی ورنہ ان کے کارکن متنفر ہوکر کسی اور طرف چلے جائیں گے۔

’لہذا مولانا صاحب اپنی سیاسی قیمت بڑھا کر دوبارہ حکومت کا ہی حصہ بن جائیں گے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست