50 سال قبل لاہور میں منعقد ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سربراہی اجلاس میں غیر ملکی مہمانوں کو ٹھہرانے کے لیے شہر کی اشرافیہ کے گھروں کو استعمال کیا گیا تھا۔
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) 57 رکن ممالک کے ساتھ اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی بین الحکومتی تنظیم ہے جو مسلمانوں کی اجتماعی آواز سمجھی جاتی ہے۔
پاکستان سعودی عرب کے ساتھ مل کر او آئی سی کا کلیدی بانی رکن رہا ہے اور 1974 میں پاکستان نے 24-22 فروری کو او آئی سی کی دوسری سربراہی اجلاس کی میزبانی بھی کی تھی۔
شکور طاہر جو پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق نیوز ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں، نے لاہور میں ہونے والی اس کانفرنس کی کوریج کی تھی۔
انڈپینڈنٹ اردو کو اس کانفرنس کا احوال سناتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’1974 کے سربراہی اجلاس نے مسلم اقوام کو اتحاد، خود انحصاری اور تعاون کی راہ پر گامزن کیا تھا۔
’اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ایک عالمی اسلامی لیڈر کے طور پر ابھرے اور پاکستان کو مسلم دنیا میں اہم حیثیت دلوائی۔‘
شکور طاہر کا کہنا تھا کہ ’شاید یہ بہت کم لوگوں کے علم میں ہو کہ اس تنظیم کا وجود 1969 میں قیامِ عمل میں آیا جب 21 اگست 1969کو ایک آسٹریلوی یہودی انتہاپسند نے مسلمانوں کے قبلہ اول کو آگ لگا دی۔ اس سے مسجد اقصیٰ کا بڑا حصہ جل گیا اور ایک محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہو گیا جسے صلاح الدین ایوبی نے نصب کیا تھا۔
’اس واقعے پر اسلامی دنیا نے شدید ردعمل دیا اور مراکش کے شہر رباط میں 24 مسلم ممالک کے سربراہان اور نمائندگان اکھٹے ہوئے اور 25 ستمبر 1969 کو اس اجتماع میں ایک قرارداد منظور کی گئی۔‘
یہ قرارداد اسلامی تعاون تنظیم یا اسلامی کانفرنس تنظیم کے قیام کا نقطۂِ آغاز تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق: ’اس قرارداد میں تمام ممالک نے مسئلہ فلسطین کے حل اور مسجد اقصیٰ جیسے واقعات کے سدِباب پر زور دیا۔‘
لاہور میں منعقدہ دوسری سربراہی کانفرنس 1974 کو 22 سے 24 فروری تک لاہور کی صوبائی اسمبلی کی عمارت میں منعقد کی گئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ’بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ لاہور کے فیصل چوک پر واقع 160 فٹ اونچا سمٹ مینار آج سے 50 سال قبل پاکستان میں بلائی گئی دوسری اسلامی تعاون تنظیم یعنی او آئی سی کی یادگار ہے۔‘
شکور طاہر کا کہنا تھا کہ ’اس وقت اس طرح کی کانفرنس کے لیے پاکستان کے پاس وسائل اور سرمائے کی بھی کمی تھی لیکن پاکستان کے دوست ملک سعودی عرب کے اس وقت کے بادشاہ شاہ فیصل نے بھرپور مدد کی، ورنہ یہ ممکن نہ ہو پاتا۔‘
پاکستان نے جب او آئی سی کا اجلاس منعقد کرنے کا سوچا تو اس کے لیے لاہور کو منتخب کیا گیا کیوں کہ یہ ایک تاریخی شہر تھا۔
شکور طاہر کہتے ہیں کہ ’جب مہمانوں کو ٹھہرانے کی باری آئی تو اس وقت اچھے اور بڑے ہوٹلوں کی کمی تھی۔ صرف ایک پانچ ستارہ ہوٹل لاہور میں موجود تھا، تو حکومت نے صاحبِ ثروت لوگوں کے بڑے بڑے گھر ان سے درخواست کر کے لیے اور اسلامی ممالک کے سربراہان کو ان کے شایانِ شان ٹھہرایا گیا۔‘
اقبال بخاری، جو ایک سینیئر صحافی اور محقق ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’لوگ اس وقت بنگلہ دیش کی علیحدگی کی وجہ سے بھٹو صاحب اور پیپلز پارٹی سے متنفر تھے لیکن کانفرنس کے انعقاد پر لوگوں نے ان کی پذیرائی کی۔
’اس کانفرنس میں سعودی عرب کے شاہ فیصل کی کوششوں سے پاکستان اور بنگلہ دیش قریب آئے اور پاکستان نے بنگلہ دیش کو الگ ملک کی حثیت سے تسلیم کیا۔‘
اس وقت کا حوال بیان کرتے ہوئے اقبال بخاری کا کہنا تھا کہ ’لوگوں میں ایک جوش اور ولولہ تھا۔ لوگوں نے اسلامی ممالک کے سربراہان کا استقبال دل و جان سے کیا اور جب بادشاہی مسجد میں سبراہان نماز کے لیے گئے تو ایک عید جیسا سما بن گیا۔‘
اقبال بخاری کا کہنا تھا کہ ’وہ ایک روح پرور منظر تھا جب شاہ فیصل، بھٹو، کرنل قذافی، یاسرعرفات اور باقی مسلم ممالک کے سربراہان پہلی صف میں بیھٹے ہوئے تھے۔ لوگ ان کے دیدار کو ہزاروں کی تعداد میں نکلے تھے۔ اس وقت سکیورٹی کے مسئلہ بھی اہم تھا کہ پوری دنیا کی نظریں اس وقت کانفرنس پر لگی ہوئی تھیں۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’مجھے یاد پڑتا ہے کہ کانفرنس سے قبل ملک غلام مصطفیٰ کھر جو بہت اچھے ایڈمنسٹریٹر مانے جاتے تھے اور اس وقت وزیراعلیٰ تھے۔
’حالانکہ وہ استعفیٰ دے چکے تھے لیکن بھٹو صاحب نے ان کو کہا تھا کہ کانفرنس تک استعفیٰ پاس رکھیں۔ غلام مصطفیٰ کھر نے ایسا ہی کیا اور کانفرنس کی کامیابی تک کام کرتے رہے اور بعد میں استعفیٰ دے دیا تھا۔‘
اقبال بخاری کا کہنا تھا کہ ’اس کانفرنس میں بھٹو صاحب نے سعودی عرب کو اسلامی بینک اور اپنی طاقت پیٹرول بم کو استعمال کرنے کا کہا اور انہیں اس پر راضی کرنے کی کوشش کی کہ وہ امریکہ سے نہ ڈریں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’لیکن افسوس کہ اس وقت کے تمام لیڈرز ہی کسی نہ کسی سازش کا شکار ہو کر دنیا سے چلے گئے لیکن اس کانفرنس نے پاکستان کو اسلامی دنیا کی آنکھ کا تارا بنا دیا تھا۔‘
شکور طاہر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’اس وقت تمام امہ مسئلہ فلسطین پر اکھٹی ہوئی تھی اور وہ اب تک حل نہیں ہو پایا، بلکہ اب تو گمبھیر صورت حال اختیار کر گیا ہے۔
’ضروت اس امر کی ہے کہ مسلم امہ اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک جگہ جمع ہو تو اس وقت درپیش تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔