یوکرین میں جاری خونی جنگ کو دو سال گزر چکے ہیں۔ اس جنگ میں پانچ لاکھ سے زیادہ فوجیوں کی جان گئی یا وہ زخمی ہوئے۔ 60 لاکھ سے زیادہ یوکرینی شہری ملک چھوڑ چکے ہیں لیکن اس کے باجود اگلے محاذ پر گذشتہ ایک سال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
مستقبل کو سامنے رکھ کر مغربی ملکوں کی طرف سے یوکرین کو ہتھیاروں کی اگلی کھیپ کی فراہمی سے لے کر اس حوالے سے فیصلے کیے جائیں گے کہ آیا کیئف زیادہ جارحانہ حکمت عملی اپناتا ہے یا نہیں۔ لیکن تین بنیادی سبق اور آثار ہیں جو یہ اشارہ کرتے ہیں کہ مستقبل میں جنگ کس طرف جا سکتی ہے۔
غور سے سنیں کہ روس کے صدر ولادی میر پوتن کیا کہہ رہے ہیں۔ ان کی باتوں میں اشارے ہیں۔
جھوٹ بولنے اور گمراہ کرنے پر پوری طرح آمادہ رہنے کے باوجود ولادی میر پوتن ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ جب انہوں یوکرین پر نے حملہ کیا تو ایسا لگتا تھا کہ انہیں درست طور پر یقین ہے کہ وہ آسان فتح حاصل کر لیں گے۔
رواں ماہ کے آغاز پر پوتن نے امریکی ٹیلی ویژن کے قدامت پسند میزبان ٹکر کارلسن کو انٹرویو دیا۔ ان کے انٹرویو کے پہلے آدھے گھنٹے میں اپنی باتیں غیرحقیقی انداز میں دہرائیں۔ وہ بات کو نویں صدی میں روس اور یوکرین کی تاریخ کی طرف لے گئے اور کہا ہے کہ وہ یہ ماننے میں حق بجانب ہیں کہ روس اور یوکرین دو الگ الگ ملک نہیں ہیں۔
اس کی بجائے انہوں نے فرض کرلیا یوکرین کے شہری تقریباً بغیر کسی لڑائی کے نئی اور زیادہ فرمانبردار حکومت مسلط کرنے کو قبول کر لیں گے جو یوکرین کو روس کے اثر و رسوخ کے دائرے میں رکھنے کے لیے تیار ہو۔
ایک حد تک یہ اب بھی ان کا واضح مقصد ہے۔ تاہم ان کی بیان بازی میں باریک سا فرق آیا ہے جس پر ہمیں توجہ دینی چاہیے۔
وہ اب بھی یوکرین کو نیٹو سے باہر رکھنا چاہتے ہیں لیکن حکام اور دانشوروں دونوں کی جانب سے اشارے ملے ہیں کہ وہ یوکرین کو یورپی یونین کا حصہ بنتے دیکھنے پر تیار ہوں گے۔
اگر روس ان علاقوں کو اپنے پاس رکھنے میں جن پر اس نے قبضہ کر رکھا ہے تو اشارے یہ ہیں کہ جب تک یوکرین غیر جانبدار رہتا ہے وہ ایک حد تک آزاد رہ سکتا ہے۔
یقیناً یہ نہ تو بین الاقوامی قانون کے تحت قابل قبول ہے اور نہ ہی یوکرین کے شہریوں کے لیے۔ تاہم اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پوتن کچھ نہ پانے کے لیے اپنے سامراجی مطالبات میں ردوبدل کر لیں گے۔
پوتن 2024 میں مضبوط پوزیشن میں جا رہے ہیں۔ ان کی افواج نے گذشتہ سال یوکرین کی جوابی کارروائی کا مقابلہ کیا اور فوج کے پاس مزید گولہ بارود موجود ہے۔
پوتن کو مغرب میں سیاسی تبدیلی کی امید ہے، خاص طور پر اگر ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی انتخاب جیت جاتے ہیں۔
تاہم ہمیں بات چیت کے لیے کسی حقیقی آمادگی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے رعایتیں دینا تو دور کی بات ہے۔ جیسا کہ اگلا سال آ رہا ہے اور اگر یوکرین 2025 میں اپنی افواج کو نئے سرے سے کارروائیوں کے لیے تیار کرتا ہے اور جیسے جیسے مغربی گولہ بارود کی پیداوار میں اضافہ ہونا شروع ہوتا ہے اور اس کا عزم برقرار رہتا ہے تو اس صورت میں ایسے کسی بھی اشارے پر توجہ کی ضرورت ہے کہ پوتن کو پریشانی لاحق ہو رہی ہے۔
اگر ایسا ہوا تو یہ اس بات کی علامت ہو سکتی ہے کہ مذاکرات ممکن ہیں۔ لیکن مستقبل قریب میں کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے یا پوتن صورت حال پر دوبارہ قابو کی کوشش میں خطرہ مول لے سکتے ہیں۔
افرادی قوت اہم ہے۔ لیکن یہ دونوں فریقوں کے لیے ایک مسئلہ ہے۔
مغرب میں زیادہ تر بحث اس بات کے گرد گھومتی ہے کہ یوکرین کو کون سے ہتھیار بھیجے جائیں۔ ماضی میں یہ کہا گیا کہ ’صحیح‘ ہتھیار ’صحیح‘ وقت پر ’صحیح‘ تعداد میں فراہم نہیں کیے گئے۔
یقیناً فوجی امداد کی فراہمی کی رفتار، پیمانہ اور نوعیت اہمیت رکھتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا کوئی جادوئی ہتھیار نہیں ہے جو تنہا جنگ کا پانسہ پلٹ سکے۔
جب ایچ آئی ہمرز یعنی ایم اے آر ایس (ہائی موبیلٹی آرٹلری راکٹ سسٹم) اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے دوسرے راکٹ اور توپیں پہلی بار فراہم کیے گئے تو انہیں جنگ جیتنے والے ہتھیار قرار دیا گیا۔
ان ہتھیاروں نے جولائی 2022 میں فراہمی کے بعد یوکرین یقینی طور پر روسی کمانڈ پوسٹوں اور گولہ بارود کے ذخیروں کو زیادہ فاصلے تک اور درستی کے ساتھ نشانہ بنانے کے قابل ہو گیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ حملہ آور روسی فوجیں ان کے مقابلے کے قابل ہو گئیں۔
جدید مغربی ٹینکوں سے لے کر ایف 16 جیٹ طیاروں تک جن کے پائلٹ پہلے ہی تربیت حاصل کر رہے ہیں، یہ سب یوکرین کی فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کریں گے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہیں۔
یوکرین کی جنگ نے واضح اور سخت سبق سکھایا ہے کہ افرادی قوت اب بھی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی ایک وجہ ہے کہ دونوں فریق اپنے جنگی نقصانات کو خفیہ رکھا ہوا ہے۔ کیئف نے اپنے اتحادیوں کو یہ بھی نہیں بتایا کہ ملک میں کتنی اموات ہو چکی ہیں۔
پوتن کے فوجیوں کی بڑی تعداد جان سے گئی یا زخمی ہوئی لیکن روس کی آبادی یوکرین سے چار گنا زیادہ ہے اور آبادی کے تناسب کے لحاظ یوکرینی بھاری نقصان اٹھا رہے ہیں۔
افرادی قوت فوجی وسائل ہوتے ہیں جو مغرب فراہم نہیں کرے گا۔ اگرچہ برطانیہ نے آپریشن انٹرفلیکس کے تحت 30 ہزار سے زیادہ یوکرینی فوجیوں کو تربیت دی لیکن لڑنے اور روس کے ساتھ وسیع تر جنگ کا خطرہ مول لینے کے لیے فوج بھیجنے کی حمایت کرنے والا کوئی سنجیدہ حلقہ موجود نہیں۔
افرادی قوت کا مسئلہ دونوں فریقوں کے لیے تیزی سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ماسکو کے یہ دعوے کہ ہر روز ایک ہزار سے 15 سو روسی شہری فوج میں شامل ہونے کے لیے رضاکارانہ طور پر سامنے آ رہے ہیں، بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر کیے جا رہے ہیں۔
لیکن مارچ کے صدارتی انتخاب سے قبل پوتن واضح طور پر نہیں چاہتے کہ فوج کو دوبارہ اس طرح متحرک کیا جائے جس طرح ستمبر، اکتوبر 2022 میں کیا گیا کیوں کہ یہ بہت غیر مقبول فیصلہ تھا۔
اگرچہ جب تک پوتن مزید لوگوں کو فوج میں بھرتی نہیں کرتے ان کی افواج کی طرف سے 2024 میں بڑے اور زوردار حملے شروع کرنے کے امکانات محدود ہیں لیکن اس ضمن میں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
فوج کی جانب سے مزید ساڑھے چار سے پانچ لاکھ فوجیوں کی درخواست کے بعد یوکرینی صدر وولودی میر زیلنسکی اور ان کے مقبول کمانڈر ان چیف جنرل ویلری زلوزنی کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
یوکرین پہلے ہی اپنی مجموعی قومی پیداوار کا ایک تہائی سے زیادہ دفاع پر خرچ کر رہا ہے، اور سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا وہ ان اضافی فوجیوں پر اٹھنے والے اخراجات کا متحمل ہو سکتا ہے۔
زیلنسکی نے بعد میں زلوزنی کو برطرف کر دیا اور شہریوں کو فوج میں جبری بھرتی کرنے نیا قانون اب بھی زیر بحث ہے۔
خدشہ یہ ہے کہ جیسے جیسے فوجیوں کی جبری بھرتی کا دائرہ کار تیزی سے ظالمانہ اور وسیع ہوتا جا رہا ہے، کیئف میں مقیم ایک یورپی سفارت کار کے الفاظ میں یہ ’یوکرین کے حوصلے پست کرنا شروع کر سکتا ہے اور پوتن کے ساتھ کسی قسم کے معاہدے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔‘
اب فتح اور شکست کا مطلب مختلف ہو چکا ہے۔
جیت اور شکست کے بارے میں اکثر کھوکھلی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ جنگ کے آغاز میں جب روسی افواج کیئف کی طرف پیش قدمی کر رہی تھیں تو فتح اور شکست کی وضاحت کرنا نسبتاً آسان تھا یعنی ایک آزاد، خودمختار قوم کے طور پر یوکرین کی بقا براہ راست خطرے میں تھی۔
تاہم دو سال بعد یوکرین کے عوام کی غیر معمولی مزاحمت کی بدولت ان کی وضاحت کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔
کیا یوکرین کی فتح کرائمیا سمیت مقبوضہ علاقے کے ہر انچ سے ہر روسی فوجی کو بے دخل کرنے سے کم نہیں ہے؟
نہ صرف یہ ایک مشکل کام ہوگا، بلکہ ضروری نہیں کہ اس سے جنگ ختم ہوجائے۔ بلکہ صرف یہ ہو گا کہ اگلا محاذ قومی سرحد پر منتقل ہو جائے گا۔
پوتن اس وقت بھی اپنی فورسز کو دوبارہ اکٹھا کرنے سمیت یوکرین کے شہروں اور برقی نظام پر ڈرون اور میزائل حملے کرنے کے قابل ہوں گے۔
کیا یوکرین کی شکست کا مطلب قوم کو محکوم بنانا ہے؟ اب اس بات کا امکان بہت کم دکھائی دیتا ہے کیونکہ روس کی فوج بہت بھاری نقصان اٹھا چکی ہے۔
برطانوی اور یوکرینی حکمت عملی کے ماہرین کے مطابق بدترین صورت حال یہ ہے کہ روس پورے مشرقی علاقے پر قبضہ کرتے ہوئے دریائے نیپرو کی طرف بڑھ سکتا ہے جو ملک سے گزرتا ہے۔
یہ صورت حال خوفناک ہوگی۔ کم از کم روس کے زیر قبضہ علاقے میں پھنسے ہوئے یوکرین کے شہریوں کے لیے، لیکن اس سے یوکرینی قوم ختم نہیں ہو گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فی الحال یوکرین سرکاری طور پر زیادہ سے زیادہ فتح کے تصور کے لیے پرعزم ہے لیکن کیئف میں بھی خاموش آوازیں موجود ہیں جو یہ تسلیم کرتی ہیں کہ ملک کو ایک خوفناک صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یعنی جنگ کو غیر معینہ مدت تک جاری رکھنا یا آگے بڑھنے کے قابل ہونے کے نام پر کچھ علاقے کا نقصان قبول کرنا، خاص طور پر نیٹو اور یورپی یونین کا رکن بننے کے لیے۔
یوکرین کے ایک عہدے دار نے تسلیم کیا ہے کہ ’ہم اس معاملے (نیٹو اور یورپی یونین کی رکنیت) کے قریب نہیں پہنچے لیکن ایک دن ہمیں فیصلہ کرنا پڑ سکتا ہے کہ یوکرینی سرزمین کے مقابلے میں یوکرینی زندگی زیادہ اہم ہیں۔‘
یہ آسان نہیں ہوگا۔ زیلنسکی کسی بھی سمجھوتے سے انکار کر چکے ہیں اور یہ آئین کے خلاف بھی ہوگا اگرچہ اس سلسلے میں کام کرنے کے طریقے موجود ہیں۔
مثال کے طور پر مقبوضہ علاقوں پر کسی بھی روسی دعوے کو باضابطہ طور پر تسلیم نہ کرنا۔
باوجود اس کے کہ مقصد کے واضح احساس کے بغیر کوئی بامعنی حکمت عملی نہیں اپنائی جا سکتی ہے، یہ واضح ہے کہ جنگ کے رواں تیسرے سال ہمیں محتاط اور دانشمندانہ بات چیت دکھائی دے سکتی ہے جس کا مقصد وہ بامعنی اور قابل حصول کامیابی ہے جس پر کیئف اور اس کے مغربی شراکت دار یقین رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر مارک گیلوٹی ’پوتنز وارز: فرام چیچنیا ٹو یوکرین‘ نامی کتاب کے مصنف ہیں جو اب پیپر بیک میں شائع ہو چکی ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent