اسلام آباد میں مارگلہ پہاڑیوں پر بنی ٹریل فائیو پر ایک نوجوان ماحول کو صاف رکھنے اور اسے آلودگی سے بچانے کے لیے لوگوں کی جانب سے پھینکے گئے کوڑے کو اٹھانے اور ماحول کو صاف رکھنے کے لیے آگاہی پھیلانے کا کام کرتے ہیں۔
منصور شیروانی نامی یہ نوجوان اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے ساتھ بطور رضاکار کام کرتے ہیں، جنہیں ان کی خدمات پر ’اویرنس مین‘ کے خطاب سے نوازا گیا ہے۔
ٹریک سوٹ، دستانے، ہائیکنگ کے مخصوص جوتے، چشمہ اور کاؤ بوائے ٹوپی پہنے منصور شیروانی ٹریل پر ہائیکنگ کے لیے آنے والوں کو ماحول کو صاف رکھنے سے متعلق آگاہی دیتے نظر آتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں منصور شیروانی نے بتایا: ’میں نے 2021 میں اس کام کا آغاز اس مقصد سے شروع کیا کہ لوگوں کو فطرت کے بارے میں آگاہی دوں کہ جو لوگ یہاں آتے ہیں وہ پلاسٹک، کوڑا کرکٹ، درختوں کی کٹائی اور جانوروں کو تنگ کرکے نیشنل پارک کو آلودہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں کے قدرتی حسن کو بھی خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سب کو دیکھتے ہوئے میں نے اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں کو ماحول کے بارے میں آگاہی دینے کا کام شروع کیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’یہاں لوگ کچرا وغیرہ پھینکتے ہیں تو میں آگاہی دینے کے ساتھ ساتھ اب کچرا اٹھانے کا کام بھی کرتا ہوں۔ لوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ ’بھائی یہ کچرا اٹھانے کا کام کیوں کر رہے ہو‘؟ تو میرا یہی جواب ہوتا ہے کہ لوگ کچرا پھینک پھینک کر تھکتے نہیں اور میں کچرا اٹھا اٹھا کر۔ میں لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہمیں آنے والی نسلوں کے لیے اس ماحول کو صاف رکھنا چاہیے۔‘
’کچرا اٹھانے والا جا رہا ہے‘
منصور شیروانی نے بتایا کہ ’ایک دن کچرا اٹھاتے ہوئے ایک فیملی نے مجھے دیکھ کر ’کچرا اٹھانے والے‘ کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔ مجھے اس بات پر دلی تکلیف ہوئی لیکن میں نے پھر بھی ہمت نہ ہاری اور اپنے کام کو اس مقصد سے جاری رکھا کہ کسی نہ کسی کو تو اویرنس مین بننا ہے۔ بعدازاں میں نے اس فیملی کو جب اس بارے میں آگاہی دی کہ کچرا پھینکنا ہمارے لیے، اس ماحول کے لیے اور یہاں کے جانوروں کے لیے کتنا نقصان دہ ہے، تب اس فیملی نے مجھ سے معذرت کی اور اب وہ فیملی میری اچھی دوست بن گئی ہے۔‘
بقول منصور شیروانی: ’میں اب تک ہزاروں کی تعداد میں آنے والے سیاحوں کو ماحول صاف رکھنے کے حوالے سے آگاہی دے چکا ہوں۔ تب سے مجھے لوگوں کی جانب سے ’اویرنس مین‘ کا خطاب ملا اور جیسے ہی مجھے یہ لقب ملا تو میری ذمہ داری اور بھی بڑھ گئی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
منصور کہتے ہیں کہ بعض اوقات کچرا پھینکنے سے منع کرنے پر لوگ ان کے ساتھ سخت الفاظ کا تبادلہ کرتے ہیں، لیکن وہ پرسکون رہتے ہیں اور اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔
’میں رضاکارانہ طور پر یہ کام کرتا ہوں، مجھے اس کا کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ بس مجھے مارگلہ کی پہاڑیوں سے پیار ہے اور یہی پیار مجھے یہاں تک لے کر آتا ہے، جس کے لیے میں ہفتے میں تین دن یہاں کا چکر ضرور لگاتا ہوں۔
’میں لوگوں کو بتاتا ہوں کہ یہ ایک نیشنل پارک ہے اور محفوظ علاقہ ہے جہاں بندروں کو کھانا کھلانا، تمباکو نوشی، باربی کیو، لکڑی کاٹنا، جانوروں کو چھیڑنا، چیخنا چلانا، ماحولیاتی نظام میں خلل ڈالنا یا جنگلی جانوروں کو کھانا کھلانا سختی سے منع ہے۔‘
منصور نے بتایا کہ لوگ یہاں آکر بندروں کو پراٹھے، چپس یا دیگر ایسی چیزیں کھلاتے ہیں، جس سے یہ جانور اس کھانے کے عادی ہونے کے ساتھ ساتھ سست ہوجاتے ہیں اور بعد میں سڑکوں پر آکر لوگوں پر حملہ بھی کرتے ہیں، جس سے جانوروں کے فطری عمل اور ماحول پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ سب سے زیادہ محنت یہاں آنے والے بچوں پر کرتے ہیں۔ بقول منصور: ’میری یہی خواہش ہے کہ میرے مرنے سے پہلے لوگوں کو پتہ چل جائے کہ یہ ایک نیشنل پارک ہے اور اسے ہم نے ہر قسم کی گندگی سے صاف رکھنا ہے۔‘