نئی دہلی میں کانگریس پارٹی کے بھرے ہوئے ہیڈکوارٹر کے اندر ماحول پرجوش ہے کیونکہ کارکن اور ورکرز راہل گاندھی کی ایک جھلک دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو ہاتھ میں سرخ جلد والے انڈین آئین کی چھوٹی کتاب لے کر پوڈیم پر پہنچے ہیں۔
انہوں نے انتخابی مہم کے دوران اکثر اس کا استعمال کرتے ہوئے متنبہ کیا تھا کہ نریندر مودی کی مسلسل تیسری بار بھاری اکثریت ہندو قوم پرست بی جے پی کو ملک کے آئین کو توڑنے اور انڈیا کو ایک ہندو ریاست قرار دینے کا موقع دے گی۔
یہ بھاری اکثریت حاصل نہیں ہوئی اور مودی اب ایک مخلوط حکومت پر اتفاق کرنے کی کوشش میں ہیں جو انہیں اکثریت کے لیے اپنے اتحادیوں پر انحصار کرنے پر مجبور کرے گی، ایک محدود مینڈیٹ جس کے اگلے پانچ سالوں کے لیے دور رس نتائج ہو سکتے ہیں۔
کانگریس اور اس کے اتحادی اب بھی مودی کے قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں، لیکن آپ منگل کی رات یہاں کے ماحول کی بنیاد پر اس کا اندازہ کبھی نہیں لگا سکتے ہیں، جہاں پارٹی کے کارکنوں نے انڈیا بلاک کی غیر متوقع طور پر 230 نشستوں کو ملک کی ’دوسری آزادی کی تحریک‘ کا آغاز قرار دیا ہے۔
اس بار آزادی برطانوی استعمار سے نہیں بلکہ اس سے ہے جسے وہ مودی کی ’نفرت کی سیاست‘ کہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسی جدوجہد ہے، جس کی قیادت ایک بار پھر ایک گاندھی کر رہے ہیں، جن کے خاندان نے انڈیا کی اصل آزادی کی تحریک میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
53 سالہ گاندھی نے نامہ نگاروں سے بھرے کمرے میں بتایا کہ ’ملک نے متفقہ اور واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ مودی اور ان کے معاون اور وزیر داخلہ امت شاہ اس ملک پر حکمرانی کریں۔ مجھے انڈیا کے لوگوں پر بہت فخر ہے جنہوں نے ملک پر اس حملے کی مزاحمت کی ہے۔‘
راہل گاندھی کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جس نے انڈیا کو تین وزیر اعظم دیے ہیں، جس میں اس کا پہلا وزیر اعظم بھی شامل ہے، انہوں نے جمہوریت پر ملک کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے انڈیا کے غریب ترین رائے دہندگان کا شکریہ ادا کیا۔
شدید گرمی کی لپیٹ میں گرم اور مرطوب دارالحکومت میں شام ڈھلے کانگریس ہیڈکوارٹر کے باہر لوگ ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہیں۔
انتخابات میں شکست کے باوجود کارکنوں میں جشن کا ماحول کئی مہینوں کی کشیدگی اور اندیشے کے بعد بنا کیونکہ قبل از انتخابات سروے، ماہرین اور ایگزٹ پول سبھی نے بی جے پی کی ایک اور بڑی اکثریت کی طرف اشارہ کیا تھا۔
منگل کے نتائج کانگریس کو حزب اختلاف میں ہی بٹھائیں گے لیکن پارلیمنٹ میں اسے مزید توانا آواز دیں گے اور اہم قانون سازی کی منظوری میں بڑا کردار ادا کریں گے۔
مودی کا ناقابل تسخیر ہونے کا تاثر ٹوٹ چکا ہے، کیونکہ انہیں پالیسیاں منظور کرنے کے لیے پہلے سے ناقابل بھروسہ اتحاد کے ارکان پر انحصار کرنا پڑے گا۔
انڈین ماہر معاشیات اور مصنف پرکالا پربھاکر نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’یہ واضح ہے کہ انڈیا میں لوگ مودی اور اس کی سیاست سے تھک چکے۔ یہ اس تفرقہ انگیز ایجنڈے کو فیصلہ کن طور پر مسترد کرتا ہے جس کی مودی اپنی پالیسیوں اور نفرت انگیز تقاریر کے ذریعے گذشتہ کچھ مہینوں سے تشہیر کر رہے ہیں۔
543 میں سے 400 نشستوں کا دعویٰ کرکے انہوں نے اقلیتوں کو یہ احساس دلایا کہ وہ انڈین آئین کو تبدیل کرنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔‘
پرکالا پربھاکر کا کہنا ہے کہ ’اس الیکشن میں حالات بی جے پی کے خلاف تھے۔ انڈیا کو شدید دیہی مسائل، قیمتوں میں زبردست اضافے، بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کا سامنا ہے اور اس کے بجائے مودی سٹاک مارکیٹ، این آر آئیز (بیرون ملک انڈین) کی جانب سے انڈیا کی تعریف کرنے یا انڈیا کے بارے میں کسی مغربی سی ای او کے تبصرے سے متاثر ہوئے ہیں۔ اپوزیشن کو اب 10 سال کے اس نقصان کی تلافی کرنی ہے۔‘
خاص طور پر کانگریس پارٹی نے اس نتیجے کے ساتھ زبردست انداز میں ابھری ہے اور 2019 میں جیتی گئی نشستوں کی تعداد تقریبا دوگنی ہو گئی ہے، پانچ سال پہلے اس کی کارکردگی پر ماہرین نے انڈیا کی سب سے پرانی پارٹی کے مستقبل کے وجود پر سوال اٹھایا تھا۔
پربھاکر کہتے ہیں کہ اس رفتار کو برقرار رکھنے اور بالآخر مودی کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے ’انڈیا‘ اتحاد کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ’یہ مودی حکومت کے آمرانہ رجحانات کے خلاف عوام کی جیت ہے۔‘
73 سالہ مودی اپنی دائیں بازو کی پارٹی کی جانب سے ہندو فرسٹ مہم میں سب سے آگے تھے کیونکہ انہیں امید تھی کہ وہ عوام میں مقبول بیانیے کی لہر پر سوار ہو کر زبردست کامیابی حاصل کریں گے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس غیر متوقع مقابلے نے انڈین مارکیٹ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور صنعت کار گوتم اڈانی کی دولت سے 25 ارب ڈالر کا صفایا کر دیا اور اس بات کی تصدیق کر دی کہ مودی کی بی جے پی کو آخر کار ایک زبردست حریف مل گیا ہے۔
سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ انڈیا الائنس کی یہ کارکردگی مودی حکومت کی جانب سے پیدا کیے گئے بڑھتے ہوئے معاندانہ ماحول کے باوجود سامنے آئی، جس نے ریاستی ایجنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے کانگریس پارٹی کے فنڈز پر قبضہ کر لیا، انڈین بلاک کے کچھ معروف رہنماؤں کو جیل بھیجا اور اہم این جی اوز اور میڈیا کے خلاف خطرے کا ماحول پیدا کیا۔
کانگریس کے صدر ملکا ارجن کھرگے نے کہا کہ ’مودی نے ایک سیاسی ریلی میں دھمکی دی تھی کہ چار جون کے بعد تمام اپوزیشن لیڈر جیل میں ہوں گے۔‘
نئی دہلی میں مودی کے سب سے بڑے سیاسی حریف، عام آدمی پارٹی سے تعلق رکھنے والے اروند کیجریوال اتوار کو پھر جیل لوٹ گئے، حالانکہ ان کے خلاف اب تلف شدہ شراب کی پالیسی سے متعلق الزامات ابھی تک واضح نہیں ہیں۔
کیجریوال کے ترجمان اکشے مراٹھے نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ مودی نے ’انڈیا میں جمہوریت کو کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی‘ اور اب انڈین اپوزیشن اس نقصان کی تلافی کرنے کی پوزیشن میں ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ ’جن لوگوں کے ساتھ بی جے پی نے بدسلوکی کی اور انہیں معمولی سمجھا، انہوں نے ان کا مقابلہ کیا اور انہیں ہرا کر سبق دیا۔
’انڈیا اتحاد اگلی حکومت کی تشکیل کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ جمہوری پسپائی کو روکا جا سکے اور انڈیا کو ایک پرامن، وفاقی اور مشترکہ سیاسی نظام کی راہ پر واپس لایا جا سکے جو متنوع آوازوں کو دبانے کے بجائے ان کی قدر کرتا ہو۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے انڈیا ونگ کے سربراہ آکار پٹیل کہتے ہیں کہ ’انڈیا کو گجرات (مودی کی آبائی ریاست) کی طرح ایک پارٹی کی ریاست بننے کا خطرہ تھا۔ صرف نام کی جمہوریت، جہاں اپوزیشن اور اس کے ادارے مشکلات کا شکار ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کو ٹال دیا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پوری سول سوسائٹی چاہتی ہے کہ امتیازی قوانین اور بدنیتی پر مبنی گرفتاریاں ختم کی جائیں، جس میں زیادہ وقت لگے گا کیونکہ بی جے پی فی الحال حکومت میں رہے گی۔‘
اگرچہ مودی کی پارٹی کو پورے انڈیا کے نتائج میں کچھ ذلت آمیز شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ، لیکن سب سے زیادہ حیرت انگیز شکست ایودھیا میں تھی، جہاں انہوں نے غیر قانونی طور پر مسمار کی گئی مسجد کی جگہ پر ہندو دیوتا رام کا ایک بڑا مندر تعمیر کیا تھا۔
مودی کی وزیر ترقی برائے خواتین و اطفال سمرتی ایرانی بھی اتر پردیش میں سخت مقابلے میں اپنی نشست ہار گئیں جو گذشتہ 10 سالوں سے بی جے پی کا گڑھ رہا ہے۔
پربھاکر کے بقول ’ایک بار جب کوئی اتنے لمبے عرصے تک اقتدار میں رہتا ہے اور اس کی شخصیت اتنی طاقتور ہوتی ہے، تو کوئی بھی ان کو زمینی حقائق نہیں بتاتا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس سے انڈیا اتحاد کی مودی کی طاقت کو توڑنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے، ایک وقت میں ایک سیاسی دھچکا، لگتا ہے منگل کے نتائج کے ساتھ ہی الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا اتحاد بی جے پی کے اتحادیوں کو پرکشش عہدوں کی پیشکش کر کے بھی اپنے ساتھ ملا سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پربھاکر کہتے ہیں کہ ’مودی اور شاہ کے پاس جیتنے کا کوئی آداب نہیں ہے، وہ اپنے ہی لوگوں کی تعریف کرنے، انہیں قائل کرنے، پارٹی اتحاد میں ان کی شراکت کی تعریف کرنے کے بجائے انہیں تنقید کا نشانہ بنانے کے عادی ہو گئے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ این ڈی اے کے چھوٹے اتحادیوں کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ کانگریس سے مل جائیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کیمپ کے ممکنہ حلیفوں سمیت کانگریس اور انڈیا کے ارکان کی ذمہ داری ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں مودی پر مزید دباؤ ڈالیں۔
فی الحال ایک محتاط انڈیا بلاک کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سیاسی حکمت عملی کی سخت حفاظت کر رہے ہیں، کھرگے کے بقول ’مودی جی دیکھ رہے ہیں۔‘
انڈیا کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں اکنامک سٹڈیز اینڈ پلاننگ کے سابق پروفیسر ارون کمار کہتے ہیں کہ ’سیاسی رہنماؤں کو اب احساس ہو گیا ہے کہ انہیں ایک ساتھ رہنا ہوگا اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے اور بی جے پی اقتدار میں واپس آتی ہے تو پھر یہی رویہ ہو گا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ کانگریس اور اس کے اتحادیوں کو، انڈین پارلیمنٹ میں اپنی نمایاں موجودگی کے ساتھ، ان لاکھوں ووٹروں کا دفاع کرنا چاہیے جنہوں نے بی جے پی کی اپنے مقاصد کے حصول کی شدید خواہش اور تقسیم کرنے والے منشور کے وعدوں کی مخالفت کرنے کے لیے ان پر بھروسہ کیا ہے۔
© The Independent