پنجاب کے کون سے نالے اربن فلڈنگ کا سبب بن سکتے ہیں؟

پی ڈی ایم اے اس خدشے کا اظہار کر چکی ہے کہ رواں برس مون سون میں بارشیں 35 فیصد تک زیادہ ہونے کے امکانات موجود ہیں جبکہ یکم جولائی سے پنجاب میں مون سون بارشوں کا سلسلہ شروع ہونے کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے۔

16 جولائی 2023 کی اس تصویر میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں سول ڈیفنس کے اہلکار شہر میں سیلابی صورت حال کے دوران امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں(اے ایف پی)

پاکستان میں محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ ملک بھر میں 26 جون سے یکم جولائی تک شدید بارشوں کا امکان ہے، جس سے پنجاب کے کئی شہروں میں اربن فلڈنگ کا بھی خدشہ ہے۔

موسم کی اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے محکمہ موسمیات اور پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے بھی ہائی الرٹ جاری کیے ہیں۔

محکمہ موسمیات نے بارشوں کے دوران تمام متعلقہ اداروں کو ’الرٹ‘ رہنے اور کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔

جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے گرمی کی شدت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کو مانیٹر کر رہی ہیں۔

مریم نواز نے گذشتہ روز پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ہیڈ آفس کا دورہ کیا جہاں ایک خصوصی اجلاس میں انہیں تمام بیراج لنک کنال، مین کنال، ڈریننگ سسٹم اور حفاظتی بندوں کی صورت حال پر رپورٹ پیش کی گئی۔

پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر جنرل عرفان علی کاٹھیا نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے سیلابی صورت حال والے اضلاع میں انتظامیہ کو دریاؤں اور نالوں کے راستے کلیئر کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔‘

عرفان علی کے مطابق: ’ہم ندی نالوں کی صفائی کروا رہے ہیں اور روزانہ وزیراعلیٰ آفس کو رپورٹ کریں گے۔ سیلابی صورت حال میں علاقہ مکینوں کے بروقت انخلا پر بھی وزیراعلیٰ نے زور دیا ہے۔

’کوئی بھی شخص سیلاب کے دوران علاقے میں بے یار و مدد گار نہ رہ جائے، اس کے حوالے سے ہم انخلا کا پلان، ارلی وارننگ سسٹم اور لوگوں میں آگاہی پھیلانے کا منصوبہ بھی وزیراعلیٰ ہاؤس بھیج رہے ہیں۔‘

عرفان علی نے مزید بتایا کہ ’ہم میڈیا کے ذریعے لوگوں کو آگاہ کریں گے جس میں ریڈیو، ٹی وی، پرنٹ میڈیا کے علاوہ وہ علاقے جہاں لوگوں کو ان چیزوں تک رسائی نہیں ہے، وہاں مساجد میں اعلانات کروائے جائیں گے تاکہ سیلابی صورت حال میں اگر علاقہ خالی کروانا پڑے تو لوگوں کو معلوم ہو کہ کیا کرنا ہے اور کہاں جانا ہے۔

’اس سارے منصوبے پر کام ہو چکا ہے اور مزید ایک دو روزمیں اس پر عملدرآمد شروع کر دیا جائے گا۔‘

پنجاب میں کون سے نالے بارشوں کے دوران اربن فلڈنگ کا سبب بن سکتے ہیں؟

اس حوالے سے پی ڈی ایم اے کے ایمرجنسی کنٹرول روم کی انچارج رابعہ پرویز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پنجاب میں چھوٹے چھوٹے ندی نالے تو بہت سے ہیں لیکن بڑے نالوں کا، سیلاب کے دنوں میں بہت اثر پڑتا ہے، جو بارشوں کے دوران بھر جاتے ہیں اور فلڈنگ کا سبب بنتے ہیں۔‘

ان کے مطابق: ’زیادہ تر نالے سیالکوٹ، نارووال اور راولپنڈی کی حدود میں ہیں۔ سیلابی صورت حال میں ہم زیادہ تر بڑے نالوں کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں جہاں پانی زیادہ ہوتا ہے۔‘

اربن فلڈنگ کے حوالے سے رابعہ پرویز نے بتایا کہ ’یہ پانی کے نالے بھر جانے اور غیر منظم تعمیرات کی وجہ سے ہوتی ہے۔ بارشوں کا پانی جب نالوں میں جذب نہیں ہوتا تو یہ پانی شہروں کے اندر سیلاب کی صورت میں آ جاتا ہے۔

’اس کے لیے راولپنڈی کا نالہ لئی بہت مشہور ہے کہ وہاں پر پانی کا بہاؤ زیادہ ہوتا ہے اور وہ نالے سے باہر آ جاتا ہے اور اربن فلڈنگ کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح سے نارووال، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، نالہ دیگ، ایک، پھلکو، بین اور بسنتر نالہ ہے۔‘

رابعہ نے مزید بتایا کہ ’نالہ پھلکو کی زیادہ سے زیادہ گنجائش 25 ہزار کیوسک ہے جبکہ اس کی لمبائی 80 کلومیٹر ہے۔ یہ سیالکوٹ چھاؤنی کی طرف ہے۔ اس میں پانی کے اضافے سے جو علاقے متاثر ہو سکتے ہیں ان میں سیالکوٹ اور وزیر آباد کے علاقے ہیں۔ اس نالے کا آؤٹ فال دریائے چناب کی طرف ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کے راستے میں گوجرانوالہ، گجرات اور جی ٹی روڈ بھی آتا ہے۔‘

رابعہ کے مطابق: نالہ دیگ کی گنجائش 17 ہزار کیوسک ہے جبکہ اس کی لمبائی 160 کلومیٹرہے اور جو علاقے اس کی وجہ سے پانی کی زد میں آ سکتے ہیں، ان میں ظفر وال، چونڈہ، پسرور، گوجرانوالہ، مریدکے اور فیروز والا شامل ہیں۔

’نالہ ایک کی گنجائش 25 ہزار کیوسک ہے اور اس کی لمبائی 56 کلومیٹر ہے۔ جو علاقے اس سے متاثر ہو سکتے ہیں، ان میں سیالکوٹ اور سمبڑیال کے علاقے شامل ہیں۔‘

اسی طرح: ’نالا بسنتر کی گنجائش ساڑھے سات ہزار کیوسک ہے۔ اس کی لمبائی 51 کلومیٹر ہے، اور اس سے نارروال کے علاقے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔‘

رابعہ پرویز کے مطابق: ’نالہ بئین میں 10 ہزار کیوسک پانی سما سکتا ہے۔ اس کی لمبائی 48 کلومیٹر ہے اور یہ شکر گڑھ، نارووال کی طرف ہے، جس کی وجہ سے شگرگڑھ کے علاقے متاثر ہو سکتے ہیں۔‘

اسی طرح: ’نالہ لئی کی لمبائی 30 کلو میٹر ہے، جس کی وجہ سے راولپنڈی کا اربن علاقہ متاثر ہوتا ہے اور اس کا آؤٹ فال دریائے سواں میں ہوتا ہے۔‘

نالوں کی صفائی کیوں ضروری ہے؟

رابعہ پرویز نے بتایا کہ ’نالوں، دریاؤں اور نہروں وغیرہ میں مختلف اقسام کی گندگی ہوتی ہے جس میں سلٹ (گاد)، ڈیبری (ملبہ) اور سیڈامنٹ (تلچھٹ) وغیرہ ہوتا ہے۔

’سیڈامنٹ اور اس کی ایک قسم سلٹ بہت چکنی ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ نالوں کے اطراف میں جم جاتی ہے۔ اس کی صفائی بہت ضروری ہوتی ہے اس کی وجہ سے پانی کے بہاؤ کی روانی میں کمی آ جاتی ہے اور سیلاب کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، کیونکہ اگر پانی کا بہاؤ کم ہو گا تو نالے میں پانی کا لیول بھی بڑھ جائے گا اور سیلاب کی صورت حال بن جائے گی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’جہاں تک ملبہ ہے اس میں پتے، پلاسٹک، درختوں کی شاخیں اور کوڑا وغیرہ شامل ہے، جو پانی کے بہاؤ کو روکتے ہیں۔ یہ بھی صاف کرنا ضروری ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’دریاؤں پر بنے ہائیڈرولک سٹرکچرز جیسے ہیڈ ورکس اور بیراجز پر ڈی سلٹنگ کا کام زیادہ ہوتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’پی ڈی ایم اے کے ڈی سلٹنگ میں زیادہ کام نالوں اور ڈرینز کی ڈی سلٹنگ کی طرف ہوتا ہے جن میں نالے، پانی، سیورج، ڈرینج کا نظام پلیں وغیرہ شامل ہیں۔‘

رابعہ کے مطابق: ’ندی نالوں کی صفائی کا مقررہ وقت نہیں ہوتا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ کہ صفائی کا کام مہنگا ہے اور دوسرا یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اگر تو پانی کی گنجائش کسی نالے میں کم ہو گئی ہے تو اس کے بعد صفائی کا عمل کیا جاتا ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک سال میں ایک مرتبہ یا پھر جہاں ضرورت پیش آئے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’بین الاقوامی سطح پر مون سون سے پہلے اور مون سون کے بعد صفائی کی جاتی ہے لیکن چونکہ یہ مہنگا عمل ہے اس لیے ضرورت پڑنے پر کیا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’نہروں پر سال میں ایک مرتبہ ڈی سلٹنگ ضرور کی جاتی ہے۔ یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ بارشیں کتنی ہوئیں۔ جتنی بارشیں ہوں گی پانی بھی اسی حساب سے آئے گا اور وہاں سلٹیشن زیادہ ہو گی اس لیے وہاں ڈی سلٹنگ کے عمل کی زیادہ ضررت ہوتی ہے۔‘

جولائی کے کس ہفتے میں کتنی بارش ہو سکتی ہے؟

پی ڈی ایم اے اس خدشے کا اظہار کر چکی ہے کہ رواں برس مون سون میں بارشیں 35 فیصد تک زیادہ ہونے کے امکانات موجود ہیں جبکہ یکم جولائی سے پنجاب میں مون سون بارشوں کا سلسلہ شروع ہونے کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے۔

پی ڈی ایم اے کے مطابق جولائی کے پہلے ہفتے میں 15 سے 50 ملی میٹر بارش کے امکانات ہیں۔

جولائی کے دوسرے ہفتے میں 25 سے 35 ملی میٹر بارشیں، تیسرے ہفتے میں بالائی پنجاب اور جنوبی پنجاب میں 15 سے 25 ملی میٹر بارش، جولائی کے چوتھے ہفتے میں 50 سے 70 ملی میٹر بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

ان بارشوں کے نتیجے میں اربن فلڈنگ اور جنوبی پنجاب میں پہاڑی علاقوں سے آنے والے سیلابی ریلوں کا خطرہ بھی ہے۔

 پی ڈی ایم اے کے مطابق 30 جون سے موسلا دھار بارش کے باعث اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، سیالکوٹ، گوجرانوالہ اورنارووال میں اربن فلڈ نگ کا خدشہ بھی ہے۔

آندھی اور جھکڑ چلنے اور گرج چمک کے باعث روزمرہ کے معمولات متاثر ہونے، کمزور انفرا سٹرکچر جیسے بجلی کے کھمبے، گاڑیاں، سولر پینلز وغیرہ کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

 

رواں برس مون سون میں ملک کے مختلف علاقوں میں موسم کیسا رہے گا؟

محکمہ موسمیات نے 26 جون کو بحیرہ عرب اور خلیج بنگال سے مون سون ہوائیں ملک کے مشرقی علاقوں میں داخل ہونے کا امکان ظاہر کر رکھا ہے جبکہ ہوا کا کم دباؤ انڈین ریاست گجرات کے جنوب میں ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق اسی موسمی نظام کی بدلتی صورت حال کی وجہ سے صوبہ سندھ میں 26 جون سے یکم جولائی کے دوران، مٹھی، عمرکوٹ، میرپور خاص، سانگھڑ، ٹنڈوالہ یار، بدین، ٹھٹھہ، کراچی، حیدرآباد میں گرج چمک کے ساتھ بارشوں کا امکان ہے۔

جبکہ جامشورو، شہید بینظیر آباد، نوشہروفیروز، خیرپور، دادو، سکھر، جیکب آباد، کشمور اور لاڑکانہ میں تیز ہواؤں اور چند مقامات پر موسلادھار بارش کا امکان ہے۔

پنجاب اور دارالحکومت اسلام آباد میں 27 جون سے یکم جولائی کے دوران، اسلام آباد/راولپنڈی، مری، گلیات، اٹک، چکوال، جہلم، منڈی بہاؤالدین، گجرات، گوجرانوالہ، حافظ آباد، وزیر آباد، لاہور، شیخوپورہ، سیالکوٹ، نارووال، ساہیوال میں بارشوں کا امکان ہے۔

جبکہ جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ننکانہ صاحب، چنیوٹ، فیصل آباد، اوکاڑہ،قصور، خوشاب، سرگودھا، بھکر اور میانوالی میں تیز ہواؤں اورگرج چمک کے ساتھ وقفے وقفے سے بارش جبکہ چند مقامات پر موسلادھار بارش کے ساتھ ژالہ باری ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جبکہ 26 جون 30 جون کے دوران، بہاولپور، بہاولنگر، ڈیرہ غازی خان، ملتان، خانیوال، لودھراں، مظفر گڑھ، راجن پور، رحیم یار خان اور لیہ میں تیز ہواؤں اورگرج چمک کے ساتھ بارش کی توقع ہے۔

خیبر پختونخوا میں 28 جون سے یکم جولائی کے دوران دیر، چترال، سوات، کوہستان، مالاکنڈ، باجوڑ، شانگلہ، بٹگرام، بونیر، کوہاٹ، باجوڑ، مہمند، خیبر، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور، پشاور، مردان، ہنگو اور کرم میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کےساتھ وقفے وقفے سے بارش کا امکان اور چند مقامات پر موسلادھار بارش کی بھی توقع ہے۔

بلوچستان میں بھی 26 جون سے 28 جون کے دوران، لسبیلہ، خضدار، آواران، جھل مگسی، قلات، نصیر آباد، جعفرآباد، ڈیرہ بگٹی، کوہلو،ژوب اور بارکھان میں تیز ہواؤں اورگرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔

گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 28 جون سے یکم جولائی کے دوران گلگت بلتستان کے علاقے دیامیر، استور، غذر، سکردو، ہنزہ، گلگت، گانچھے، شگر میں بارشوں کا امکان ہے۔

جبکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں وادی نیلم، مظفر آباد، راولاکوٹ، پونچھ، ہٹیاں، باغ، حویلی، سدھنوتی، کوٹلی، بھمبر اور میر پور میں تیز ہواؤں اورگرج چمک کے ساتھ وقفےوقفے سے بارش کا امکان ہے۔ اس دوران کشمیر کے بعض مقا مات پر موسلادھار بارش کی بھی توقع کی جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات