قومی اسمبلی نے تقریباً 19 ہزار ارب روپے کا وفاقی بجٹ منظور کر لیا

سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں قومی اسمبلی نے 18 ہزار 887 ارب روپے کا وفاقی بجٹ منظور کر لیا۔

سبزی فروش 12 جون 2024 کو اسلام آباد کی ایک مارکیٹ میں گاہکوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے جمعے کو آئندہ مالی سال کے بجٹ کی منظوری دی (اے ایف پی) 

پاکستانی پارلیمان کے ایوان زیریں (قومی اسمبلی) نے جمعہ کو وفاقی بجٹ برائے مالی سال 25-2024 کی کثرت رائے سے منظوری دے دی ہے۔

سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں قومی اسمبلی نے 18 ہزار 887 ارب روپے کا وفاقی بجٹ منظور کر لیا۔

قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو اور دیگر بھی شریک ہوئے، جبکہ اس موقع پر اپوزیشن کا کہنا تھا کہ یہ آئی ایم ایف کا تیار کردہ بجٹ ہے جس میں عوام کے لیے کچھ بھی نہیں۔

ایوان نے یکم جولائی 2024 سے شروع ہونے والے سال کے لیے وفاقی حکومت کی مالیاتی تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بعض ترامیم کے ساتھ فنانس بل 2024 کی منظوری دے دی ہے۔

فنانس بل 2024 پر اپوزیشن کے نکات کا جواب دیتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ معیشت نے استحکام حاصل کر لیا ہے۔

انہوں نے معیشت کو ترقی کی طرف گامزن کرنے کے مقصد کے ساتھ معاشی استحکام کے عمل کو مزید آگے بڑھانے کے لیے حکومت کے عزم کا اظہار کیا۔

بجٹ کی اہم خصوصیات میں نئے مالی سال کے لیے ٹیکس محصولات کا ہدف 13 ٹریلین روپے (46.66 ارب ڈالر) شامل ہے، جو رواں سال کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔

نئے ٹیکسوں میں براہ راست ٹیکسوں میں 48 فیصد اور بالواسطہ ٹیکسوں میں 35 فیصد اضافہ شامل ہے۔ پیٹرولیم لیویز سمیت نان ٹیکس ریونیو میں 64 فیصد اضافے کا امکان ہے۔

ٹیکسٹائل، چمڑے، موبائل فونز اور رئیل اسٹیٹ سے حاصل ہونے والے سرمائے کے حصول کو نئے بجٹ میں محصولات کے نئے اقدامات کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شعبوں میں شامل کیا گیا ہے۔ دریں اثنا، تنخواہ دار طبقہ اپنی آمدنی پر زیادہ براہ راست ٹیکس ادا کرے گا۔

نئے مالی سال کے لیے مالیاتی خسارے کا ہدف جی ڈی پی کا 5.9 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ بجٹ میں اقتصادی ترقی کی شرح 3.6 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے جبکہ افراط زر کی شرح 12 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔

قومی اسمبلی میں بین الاقوامی فضائی سفر کے لیے ٹکٹوں پر ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کی شق منظور کرلی گئی۔

یکم جولائی سے بین الاقوامی سفر کے لیے اکانومی اور اکانومی پلس ٹکٹ پر 12500 روپے ٹیکس لاگو ہوگا۔

یکم جولائی سے امریکا اور کینیڈا کے لیے بزنس کلاس اور کلب کلاس ٹکٹ پر ٹیکس میں ایک لاکھ روپے تک اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔

مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے سفر کےلیے بزنس، فرسٹ اور کلب کلاس پر ڈیڑھ لاکھ روپے ٹیکس دینا ہوگا، جب کہ یورپ کے فضائی سفر کےلیے بزنس، فرسٹ اور کلب کلاس پر 2 لاکھ 10 ہزار روپے ٹیکس لاگو ہو گا۔

مشرق بعید، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے فضائی سفر پر بزنس، فرسٹ اور کلب کلاس پر دو لاکھ 10ہزار روپے ٹیکس دینا ہوگا۔

قومی اسمبلی نے نئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بیل آؤٹ پر مزید بات چیت سے قبل آنے والے مالی سال کے لیے حکومت کا ٹیکسوں سے لدا ہوا مالیاتی بل منظور کیا۔

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے دو ہفتے قبل آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تجاویز قومی اسمبلی کے سامنے پیش کی تھیں۔

قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتوں خصوصاً پی ٹی آئی کے علاوہ حکومتی اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے بجٹ تجاویز کی شدید تنقید کی گئی تھی۔

حزب اختلاف کی جماعتوں، خاص طور پر اس وقت قید سابق وزیراعظم عمران خان کے حمایت یافتہ اراکین پارلیمنٹ نے بجٹ کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ یہ انتہائی مہنگائی کا باعث بنے گا۔

منگل کو پیپلز پارٹی نے بجٹ پر بحث کے ابتدائی بائیکاٹ کے بعد بعض تحفظات کے باوجود فنانس بل کے حق میں ووٹ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔  

پارٹی اجلاس کے بعد پریس بریفنگ دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے کہا کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اگر پارٹی نے بجٹ کو ووٹ نہیں دیا تو یہ حکومت کو ختم کرنے اور ملک میں عدم استحکام کی راہ ہموار کرنے کے مترادف ہو گا۔

پیپلز پارٹی کے علاوہ ایک اور حکمران اتحادی پارٹنر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پی) کے اراکین قومی اسمبلی نے بھی تنخواہ دار اور متوسط ​​طبقے کے لوگوں پر ٹیکس عائد کرنے کے حکومتی اقدام پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ بجٹ سے ملک میں مہنگائی بڑھے گی۔

پالیسی سازوں نے 12 جولائی کو پیش کیے جانے والے قومی بجٹ میں یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال کے لیے 13 ٹریلین روپے کا ٹیکس ریونیو کا ایک چیلنجنگ ہدف مقرر کیا ہے، جو موجودہ سال سے تقریباً 40 فیصد زیادہ ہے۔

پاکستان آئی ایم ایف سے چھ سے آٹھ ارب ڈالر کے قرض کے لیے بات چیت کر رہا ہے۔

ٹیکس ہدف میں اضافہ رواں سال کے نظرثانی شدہ تخمینوں کے مقابلے براہ راست ٹیکسوں میں 48 فیصد اور بالواسطہ ٹیکسوں میں 35 فیصد اضافے سے بنا ہے۔ پیٹرولیم لیویز سمیت نان ٹیکس ریونیو میں 64 فیصد اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات کے ساتھ ساتھ موبائل فونز پر ٹیکس 18 فیصد تک بڑھ جائے گا اس کے علاوہ رئیل اسٹیٹ سے کیپٹل گین پر ٹیکس میں اضافہ ہوگا۔

مزدوروں کو بھی آمدنی پر براہ راست ٹیکس کا سامنا کرنا پڑے گا۔

حکومت نے نئے مالی سال کے لیے اپنے مالیاتی خسارے میں جی ڈی پی کے 5.9 فیصد تک گراوٹ کا اندازہ لگایا ہے، جو رواں سال کے لیے 7.4 فیصد کے اوپر نظرثانی شدہ تخمینہ سے ہے۔

مرکزی بینک نے بجٹ سے ممکنہ افراط زر کے اثرات سے بھی خبردار کیا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کے لیے ڈھانچہ جاتی اصلاحات میں محدود پیش رفت کا مطلب ہے کہ محصولات میں اضافہ ٹیکسوں میں اضافے سے ہونا چاہیے۔

آئندہ سال ترقی کا ہدف 3.6 فیصد مقرر کیا گیا ہے جبکہ افراط زر کی شرح 12 فیصد رہنے کا امکان ہے۔

اس سے قبل وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے پیٹرولیم مصنوعات پر عائد لیوی میں اضافے کی تجویز قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کی تھی۔

اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں فنانس بل میں ترامیم ایوان میں پیش کی گئیإ جن میں پیٹرولیم مصنوعات پر عائد لیوی میں اضافے کی ترمیم بھی شامل تھی۔

دوسری جانب اپوزیشن نے بھی فنانس بل کے خلاف ترامیم پیش کر دیں اور وزیر خزانہ کی پیش کردہ ترامیم کی مخالفت کر دی۔

وفاقی حکومت نے مالی سال 2025 کے وفاقی بجٹ میں پیٹرولیم لیوی کو موجودہ 60 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر 80 روپے فی لیٹر کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم حکومت وقفے وقفے سے 20 روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی عائد کرے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت