پاکستان نے سرحد پار کارروائی کی تو ’نتائج‘ کا ذمہ دار خود ہوگا: افغانستان

افغانستان کی وزارت دفاع نے پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے عسکریت پسندوں کے خلاف سرحد پار کارروائی سے متعلق دیے گئے حالیہ بیان پر جمعے کو ردعمل دیتے ہوئے اسلام آباد کو خبردار کیا ہے کہ’نتائج‘ کا ذمہ دار وہ خود ہوگا۔

افغان سیکورٹی اہلکار دو نومبر 2023 کو صوبہ ننگرہار میں افغانستان پاکستان طورخم بارڈر پر تعینات ہیں (وکیل کوہسار/ اے ایف پی)

افغانستان کی وزارت دفاع نے پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے عسکریت پسندوں کے خلاف سرحد پار کارروائی سے متعلق دیے گئے حالیہ بیان پر جمعے کو ردعمل دیتے ہوئے اسلام آباد کو خبردار کیا ہے کہ’نتائج‘ کا ذمہ دار وہ خود ہوگا۔

جمعرات کو ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں خواجہ آصف سے جب پوچھا گیا کہ کیا پاکستان عسکریت پسندوں کو روکنے کے لیے افغانستان میں سرحد پار حملوں پر غور کرے گا تو انہوں نے کہا تھا کہ ’پاکستان کی خودمختاری سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں ہے۔‘

پاکستان طالبان کی زیر قیادت حکومت پر الزام عائد کرتا ہے کہ اس نے افغان سرزمین پر عسکریت پسندوں کو پناہ دے رکھی ہے۔ اسلام آباد کا الزام ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے افغانستان کی پناہ گاہوں سے پاکستان میں حملے کیے، تاہم کابل ان الزامات کی تردید کرتا ہے اور اس کا موقف ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی میں کوتاہیاں اس کی داخلی ذمہ داری ہے۔

خواجہ آصف کے حالیہ بیان کے بعد افغانستان کی وزارت دفاع نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’پاکستان کی قیادت کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی کو بھی حساس معاملات پر اس طرح کا حساس بیان دینے کی اجازت نہ دے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’جو کوئی بھی کسی بھی بہانے سے ہماری سرحد کی خلاف ورزی کرے گا، وہ نتائج کا ذمہ دار خود ہوگا۔‘

وزارت خارجہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ یہ افغانستان کا اصولی موقف ہے کہ وہ افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی رواں برس مارچ میں اس وقت عروج پر پہنچ گئی تھی جب صوبہ خیبر پختونخوا میں ہونے والے حملوں میں سات پاکستانی فوجیوں کی موت کے دو دن بعد پاکستان نے فضائی حملوں کے ذریعے افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی کے متعدد مشتبہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد سے ٹی ٹی پی کو حوصلہ ملا، جس کے سرکردہ رہنما اور عسکریت پسند افغانستان میں چھپے ہوئے ہیں۔

اگرچہ افغانستان میں طالبان حکومت اکثر کہتی ہے کہ وہ ٹی ٹی پی یا کسی دوسرے عسکریت پسند گروپ کو اپنی سرزمین سے پاکستان یا کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی، لیکن حالیہ برسوں میں ٹی ٹی پی نے پاکستان کے اندر متعدد حملے کیے ہیں، جس سے افغان طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں۔

26 جون کو بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دو اہم کمانڈروں نصر اللہ عرف مولوی منصور اور ادریس عرف ارشاد کو گرفتار کر کے بلوچستان میں دہشت گرد کارروائیوں کے لیے اڈے بنانے کا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا ہے۔

پریس کانفرنس کے دوران گرفتار کمانڈر نصر اللہ کا ریکارڈ شدہ بیان بھی سنوایا گیا، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ انڈین ایجنسی ’را‘ نے ٹی ٹی پی اور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کا الحاق کروایا جبکہ ٹی ٹی پی کو موجودہ افغان حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔

گرفتار کمانڈر نصر اللہ نے یہ بھی بتایا تھا کہ ٹی ٹی پی کے تمام کمانڈر افغانستان میں کھلے عام گھوم رہے ہیں اور انہیں افغان حکومت کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان