پاکستان میں اب تک کن سیاسی جماعتوں پر پابندی لگی؟

الیکشن کمیشن ریکارڈ کے مطابق قیام پاکستان سے اب تک 54 چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں پر مختلف ادوار میں پابندی عائد ہو چکی ہے۔

پاکستان کے قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان میڈیا سے خطاب کر رہے ہیں جب کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے وکیل اور پارٹی چیئرمین گوہر علی خان ساتھ موجود ہیں۔ 15 جولائی 2024 کو پاکستان کی حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا (عامر قریشی/ اے ایف پی)

حکومت پاکستان نے سابق حکمران جماعت تحریک انصاف پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا بھی عندیہ دے چکے ہیں۔

حکمران اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور خود مسلم لیگ ن کے بعض رہنماوں نے اس پابندی کے اعلان پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے پہلے جن سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی گئی انہیں ختم کیا جا سکا ہے؟ یا عوام کے دلوں سے اس طرح کے اقدامات سے کسی لیڈر یا سیاسی جماعت کی مقبولیت کو کم کیا جا سکتا ہے؟

اس بارے میں سینیئر تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی کے مطابق ’ضروری نہیں کہ ہر بار کوئی تجربہ ناکام ہی ہو، مگر ماضی میں اس طرح کی پابندیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکا۔‘

سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے کہا کہ ’پی ٹی آئی پر پابندی؟ اب تک کسی سیاسی جماعت تو کیا کالعدم قرار دی گئی مذہبی انتہا پسند جماعت کو ختم نہیں کیا جا سکا، سیاسی جماعت ہو یا مذہبی، اگر ان پر پابندی کا اختیار حکومتوں اور اداروں کے پاس ہوتا ہے تو وہیں آئین میں کسی اور نام سے جماعت کا نام تبدیل کر کے چلانے کا آپشن بھی موجود ہے۔‘

’ملکی تاریخ میں کئی سیاسی و مذہبی جماعتوں پر حکومت وقت کی جانب سے مختلف ادوار میں کئی الزامات کی بنیاد پر پابندیاں عائد کرنے کی روایت قیام پاکستان سے کچھ عرصہ بعد ہی شروع ہو گئی تھی۔ ایک بڑی سیاسی جماعت نے دوسری جماعت پر پابندی لگائی اور اب وہ ایک ہی حکومت کا حصہ ہیں۔ دونوں جماعتیں بھرپور سیاست کر رہی ہیں۔ اسی طرح کالعدم قرار دی گئی مذہبی جماعتیں بھی نام تبدیل کر کے کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔‘

ماضی میں کن جماعتوں پر پابندی لگی؟

الیکشن کمیشن ریکارڈ کے مطابق قیام پاکستان سے اب تک 54 چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں پر مختلف ادوار میں پابندی عائد ہو چکی ہے جبکہ قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں اب تک کالعدم قرار دی جانے والی 74 تنظیموں میں فرقہ وارانہ اور علیحدگی پسند تنظیمیں، بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں فعال جہادی گروہ، طالبان کے دھڑے، القاعدہ، داعش اور ان سے منسلک تنظیمیں، طلبہ گروہ، جرائم پیشہ گینگ، فلاحی اداروں سے وابستہ تنظیمیں شامل ہیں۔

ملکی تاریخ میں سب سے پہلے جولائی 1954 میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں پابندی عائد کی گئی۔ اس سازش کے الزام میں جنرل اکبر، ان کی اہلیہ، نامور شاعر فیض احمد فیض اور کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل سید سجاد ظہیر سمیت متعدد افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا تھا۔

دوسری بار مارچ 1971 میں اس وقت کے صدر جنرل یحییٰ خان نے شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ پر پابندی لگانے کا اعلان کیا، اس جماعت کے سربراہ شیخ مجیب پرعدم تعاون تحریک کے ذریعے اقدام بغاوت کا الزام لگایا گیا۔

جنرل یحییٰ نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’شیخ مجیب اور ان کی جماعت نے قانون کی خلاف ورزی کی اور پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کی۔ ملک میں حکومت کے ہوتے ہوئے ایک متوازی حکومت چلانے کی کوشش کی، انہوں نے ملک میں تشدد اور عدم استحکام کو ہوا دی، مشرقی پاکستان میں تعینات فوجیوں پر طعنے کسے گئے اور ان کی تذلیل کی گئی۔‘

اس وقت سپریم کورٹ کی جانب سے اس جماعت پر پابندی لگانے کے حکومتی فیصلے کی توثیق کی گئی تھی۔

سابق فوجی صدر ایوب خان کے دور میں جماعت اسلامی کو بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ 1964 میں ایوب حکومت نے ریاست مخالف سرگرمیوں اور غیر ملکی فنڈنگ کے الزام میں جماعت اسلامی کو خلاف قانون قرار دے کر اہم رہنماؤں کو گرفتار کرلیا اور دفاتر کو سیل کردیا۔ بعد ازاں جماعت اسلامی کی جانب سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا جس نے پابندی ختم کرتے ہوئے جماعت اسلامی کو بحال کر دیا۔

پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی (این اے پی) جو 1967 میں قائم ہوئی اس کے سربراہ ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی کو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کا نام دے دیا گیا تھا۔ نیشنل عوامی پارٹی کو آٹھ سال کے دوران دو مرتبہ پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے 1971 میں جنرل یحییٰ خان نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائدکی جبکہ دوسری مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1975 میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی۔ اس کے بعد نیشنل عوامی پارٹی کی دوبارہ سے تشکیل کی گئی، پہلے اس کا نام نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور پھر عوامی نیشنل پارٹی رکھا گیا۔

مئی 2020 میں وزارت داخلہ نے جیے سندھ قومی محاذ (جسقم) کو ایک کالعدم جماعت قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔ جسقم سی پیک کی مخالفت کے حوالے سے بہت مشہور تھی۔

سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں اگست 2001 میں پاکستان کی وزارتِ داخلہ کی جانب سے پہلی بار لشکرِ جھنگوی اور سپاہ محمد پاکستان نامی تنظیموں پر فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزام پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ ان سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں سے متعدد نے عدالت سے رجوع کر کے نام بحال کرا لیے اور کئی نام تبدیل کر کے کام کر رہی ہیں۔

2021 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے تحریکِ لبیک پاکستان کو کالعدم جماعت قرار دیتے ہوئے پابندی عائد کی تھی تاہم صرف سات ماہ کے عرصے کے بعد ٹی ایل پی کے احتجاج کے نتیجے میں اس وقت کی حکومت نے ایک معاہدے کے تحت اس جماعت پر عائد پابندی ہٹا دی تھی۔

سیاسی جماعتوں پر پابندی کے اثرات

مجیب الرحمن شامی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہی سیاسی جماعتوں پر پابندی کی روایت چل پڑی تھی۔ کیونکہ ہمارے آئین میں اس کی گنجائش موجود ہے آئین پاکستان کے آرٹیکل 17 میں کسی بھی جماعت پر پابندی کی وجوہات اور طریقہ موجود ہے۔ پھر الیکشن ایکٹ 2017 مین بھی سیاسی جماعت پر پابندی کا طریقہ واضح ہے۔ لیکن اس کے لیے حکومت کو کسی سیاسی جماعت پر سنجیدہ الزامات کے تحت پابندی کے فیصلے کی سپریم کورٹ سے توثیق کرانا لازمی ہوتی ہے۔‘

’لہذا تحریک انصاف یا اس کی قیادت پر جو بھی الزامات ہیں ان کے تحت حکومت کو پابندی عائد کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے توثیق کرانا ہو گی۔ اگر حکومت اپنے الزامات ثابت نہ کر سکی اور سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی پر پابندی کی اجازت نہ دی تو حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا۔

مجیب شامی کے بقول ’پابندیاں پہلے بھی لگتی رہی ہیں اور اس وقت کی حکومتوں نے اپنے مقاصد بھی حاصل کیے لیکن سیاسی جماعتوں کو مکمل ختم نہیں کیا جا سکا۔ ضروری نہیں ہر بار تجربہ ناکام ہو جائے لہذا تحریک انصاف کی قیادت کو بھی موجودہ ملکی صورتحال کے پیش نظر ایک قدم پیچھے ہٹنا چاہیے۔ حکومت کو بھی بات چیت کے دروازے کھولنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان حالات میں پی ٹی آئی پر پابندی عائد ہو بھی جائے مسائل حل نہیں ہوں گے۔‘

 سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب بھی کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگائی گئی اس کے اثرات حکومتوں کے لیے مثبت دیکھنے میں نہیں آئے۔ حکومت نے جب سے پی ٹی آئی پر پابندی کا اعلان کیا ہے ان کے اتحادی پیپلز پارٹی، اے این پی سمیت ن لیگ کے اہم رہنما بھی اس کے حق میں نہیں ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ حکومت کا نہیں بلکہ تیسری قوت ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس پابندی کی پہلے تو سپریم کورٹ توثیق نہیں کر سکتی دوسرا پابندی مسئلے کا حل بھی نہیں۔ وہ بھی پی پی پی اور اے این پی کی طرح نام میں ردوبدل کر کے سیاست کرتے رہیں گے۔ لیکن حالات حکومت کے قابو سے باہر ہوجائیں گے۔‘

’سلمان غنی کے بقول ’جس طرح بھٹو کے دور حکومت میں اے این پی پر پابندی لگی اور خود پیپلز پارٹی پر پابندی لگی۔ مگر ان کی سیاست ختم نہیں کی جاسکی آج بھی دونوں برسر اقتدار اتحادی ہیں۔ وہ ماضی کے تلخ تجربوں کی بنیاد پر کس طرح ایک سیاسی حکومت کے ہوتے ہوئے مخالف سیاسی جماعت پر پابندی کی حمایت کر سکتے ہیں۔ اس لیے حکومت حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس غیر سیاسی فیصلے پر عمل کرنے سے گریز کرے ورنہ ردعمل میں کافی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔‘

’اہم ترین سوال یہ ہے کہ سیاسی نشیب وفراز دیکھنے والے ملک کے سینئر ترین سیاست دان نواز شریف اس طرح کے اقدام کی حمایت کر رہے ہیں یا نہیں؟ انہیں اپنی پوزیشن واضح کرنا لازمی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ