انصاف کے لیے تنہا لڑنا آسان نہیں

ارشد شریف کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا، وہ اپنے بہت سے دوستوں کو بھائی کہتے اور مانتے بھی تھے۔ مجھے بیوگی کے شروع میں لگا کہ وہ والے دوست ارشد کی آواز بنیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔

22 جون، 2022 کی اس تصویر میں پاکستانی صحافی اور اینکر ارشد شریف اسلام آباد میں ہونے والی ایک تقریب میں شریک ہیں(اے ایف پی/عامر قریشی)

ارشد شریف کے قتل کے کچھ دنوں بعد مجھے احساس ہوگیا تھا کہ جوکرنا ہے اکیلے کرنا ہو گا زیادہ لوگ ساتھ نہیں دیں گے۔

کامیابی میں سب آجاتے ہیں لیکن دکھ اور تکلیف میں ساتھ دینے والے کم ہوتے ہیں۔ ارشد کے بہت سے دوست تھے جو ان کے پروگرام میں شرکت کرنے کو اعزاز سمجھتے تھے جن میں جج، جرنیل، صحافی، وکلا، دانشور سبھی شامل تھے۔

تاہم ارشد دوستوں کو کام سے الگ رکھتے تھے اور کام کو گھر سے الگ رکھتے تھے۔ وہ چیزوں کو میرٹ پر رکھتے تھے۔ وہ کسی جماعت اور ادارے کے بینیفشری نہیں تھے، وہ زندگی اپنے اصولوں پر جیتے تھے اور کرپشن سے ان کو نفرت تھی۔ کلمہ حق کہنے سے ڈرتے نہیں تھے پھر وہ جس کی بھی کرپشن ہو، وہ دستاویزات کے ساتھ پردہ چاک کردیتے تھے۔

ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا، وہ اپنے بہت سے دوستوں کو بھائی کہتے اور مانتے بھی تھے۔ مجھے بیوگی کے شروع میں لگا کہ وہ والے دوست ارشد کی آواز بنیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پھر میں نے مجبور ہوکر اس وقت کے صدر پاکستان عارف علوی کو خط لکھا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ پھر سپریم کورٹ کو عرضی بھیجی کہ چلو کوئی تو انصاف دے گا۔

اس دوران پاکستان میں معروف صحافی عمران ریاض کے کہنے پر ہزاروں لوگوں نے سپریم کورٹ کو خطوط لکھے اور دسمبر میں اعلیٰ عدلیہ نے ارشد شریف قتل کا سوموٹو لے لیا۔ اب میں عدت می‍ں تھی اور وکیل بھی نہیں تھا تو عمران بھائی کے کہنے پر میاں علی اشفاق اپنی پوری ٹیم میرے گھر لے آئے، وکالت نامہ سائن کروایا اور میری عدت کے احترام میں ان کے وکلا کی نظریں دوران ملاقات نیچی رہیں۔

جب ارشد کی والدہ کی درخواست کے بعد زیادہ تر لوگ سپریم کورٹ سے چلے گئے تو بھی یہ وکلا وہاں کھڑے رہے۔ جب عدت کے بعد میں خود کورٹ گئی تو مجھے اندازہ ہوگیا یہاں تو سال بیت جائیں گے اور کچھ نہیں ہو گا۔

اس دوران میرے ساتھ بہت کم لوگوں کا سپورٹ سسٹم تھا کیونکہ کسی کو میرے دوسری بیوی ہونے پر اعتراض تھا تو کسی کو میرے ٹویٹس سے مسئلہ تھا۔ اسی لیے میں نے کسی بھی فرد واحد کی مدد نہیں لی اور عالمی صحافتی اداروں کو اپنا مدعا بیان کیا۔

علالت، الزامات، ہراسانی، مصائب اور تکالیف میں یہ سب کرنا آسان نہیں تھا۔ لوگوں نے بددل کیا کہ یہ کیس وقت اور پیسے کا ضیاع ہو گا پر مجھے عدلیہ کی رینکنگ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ امید ہوئی کہ کینیا میں مجھے انصاف ملے گا اور ایسا ہی ہوا۔

پولیس تو دونوں ممالک کی ایک جیسی ہے لیکن ان کی عدلیہ 142 ممالک میں 101 نمبر پر آتی ہے اور پاکستان کی عدلیہ  130 نمبر پر ہے۔

جب میں وہاں مقدمہ دائر کرنے لگی تو وہاں کی یونین آف جرنلسٹ اور نامہ نگاروں کی تنظیم بھی میرے ساتھ پارٹی بن گئی۔ وہاں ہماری طرح یونین تین حصوں میں تقسیم نہیں ہے۔ کینیا کے صحافی اس لیے اس کیس کا حصہ بنے تاکہ غیر ملکی ہونے کی بنا پر میرا مقدمہ خارج نہ ہو جائے، یہ مقدمہ براہ راست آزادی صحافت کے ساتھ منسلک تھا۔

اکتوبر میں یہ کیس شروع ہوا اور جولائی میں فیصلہ بھی آ گیا۔ میں خاتون جج سٹیلا موٹوکو کی بہادری پر حیران ہوں کہ انہوں نے ایک غیر ملکی کی درخواست پر اپنے ہی اداروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔ وہاں کسی سیاسی جماعت اور صحافی نے یہ نہیں کہا کہ اس فیصلے سے ان کی قومی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی یا ان کے اداروں میں بیٹھے اہلکاروں پر برا اثر پڑے گا۔

ایسی باتیں صرف پاکستان می‍ں ہوتی ہیں جہاں قرضے میں ڈوبی ریاست اپنے تفاخر تخیل میں گھوم رہی ہے۔ جب کہ دنیا بہت آگے چلی گئی ہے۔ کینیا کے کیجاڈو ہائی کورٹ کے فیصلے نے شناخت می‍ں غلطی والے دعوے کو اڑا کر رکھ دیا ہے۔ اس بیانیے کو کینیا کی پولیس نے اور پاکستان میں بھی اس جھوٹ کو خوب بیچا گیا۔ اس سے ہمارے زخموں پر نمک پاشی کی گئی۔

ارشد شریف کو ان کی بے باک صحافت کی وجہ سے پاکستان میں مقدمات کا سامنا تھا، وہ ملک سے کچھ عرصے کے لیے باہر اس لیے گیے تھے کیونکہ ان کی جان کو یہاں خطرہ تھا۔ جیسے ان کو پاکستان میں دھمکیاں دی گئیں ویسے ہی ان کو کینیا میں قتل کروایا گیا۔ اس لیے کینیا کا کیس اور پاکستان کا کیس ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس کیس میں میرے وکیل اویچل ڈوڈلے اور میڈیا ڈیفنس نے بہت محنت کی۔ میں نے خود بھی سنوائی دلائل دیے۔ وہاں سائل کو بولنے کا حق حاصل ہے۔ جب میں نے اس کیس میں جیت کی اطلاع پاکستانی عوام کو دی تو ان کو اندھیرے میں امید کی ایک کرن نظر آئی۔ لوگ سوشل میڈیا پر سوال کرنے لگے کہ آخرکار سپریم کورٹ نے 13 ماہ ارشد شریف کیس کو سماعت کے لیے کیوں نہی‍ں مقرر کیا؟

اس قتل کے بعد میڈیا میں بہت ہراسانی پھیلی اور صحافی سیلف سنسر شپ کا شکار ہیں۔ بہت سے کیسز کا سامنا کر رہے ہیں تو کچھ جلاوطنی میں چلے گئے۔ اگر پہلے ہی سلیم شہزاد، ولی بابر، مصری خان، موسیٰ خیل، ہدایت اللہ اور دیگر کے لیے انصاف ملا ہوتا تو آج ہم ارشد شریف کے لیے پاکستان می‍ں انصاف کے متلاشی نہ ہوتے۔ 13 ماہ بعد جب ارشد شریف کے کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں آئی تو اسلام آباد میں موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کورٹ میں بہت خاموشی تھی شاید زیادہ تر لوگ ایڈہاک ججز والی تقریب میں تھے۔ میں گھٹنے اور پاؤں کے شدید درد کے ساتھ جب وہاں پہنچی تو دیکھا لفٹ خراب، پھر ایک پاؤں پر وزن دے کر مزید سیڑھیاں چڑھی تو پولیس اہلکار نے کہا کہ ہینڈ بیگ اندر نہی‍ں لے جا سکتیں۔ سو وہ بیگ جس میں میری نقدی، ذاتی کارڈز اور ادویات موجود تھیں، وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے وہاں دینا پڑا۔

پاکستان میں پرائیویسی یا انسان کے لیے حقوق کم ہی ہیں۔ وہاں سماعت دیکھنے لگی تو پتہ چلا کہ یہ تو غلطی سے کسی نے تین رکنی بینچ کے سامنے کیس لگا دیا اور سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہو گئی۔ مجھے اتنا صدمہ ہوا اور مجھے سمجھ نہی‍ں آ رہا تھا کہ اتنے ماہ بعد سماعت آئی بھی تو وہ کسی کی غلطی تھی۔

مجھے لگا تھا کہ سماعت میں جوڈیشل کمیشن کا اعلان ہو گا، 16 مقدمات کرانے والوں کے خلاف کارروائی ہو گی، آزادی صحافت کے نئے دور کا آغاز ہو گا، پر 13 ماہ بعد آنے والی سماعت چند لمحوں میں مکمل ہو گئی۔

دل خون کے آنسو رونے لگا، اپنے بوجھل وجود کو گھسیٹتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ کتنی بار اور کتنے سال ان سیڑھیوں کو چڑھنا ہو گا؟ کیا مجھے بھی ذوالفقار علی بھٹو کی طرح انصاف 40 سال کے بعد ملے گا؟ انصاف کی ہار اور جیت میں سائلین رُل جاتے ہیں۔ شاہراہ دستور بارش سے جل تھل تھی، شاید انصاف اس میں کھو گیا ہے۔

ایسا لگ رہا تھا آسمان بھی میری بے بسی پر رو رہا ہے۔ اگر 2022 میں ہی اس وقت کے چیف جسٹس ارشد شریف کے خط کو سنجیدہ لے کر اس کو تحفظ فراہم کرتے تو آج وہ زندہ ہوتا اور پاکستان میں رواں سال چھ ماہ کے دوران سات صحافی قتل نہ ہوئے ہوتے۔

انصاف کو عوام کے لیے اتنا بھی مشکل مت بنائیں کہ مقدس عمارتیں ہمیں صرف سمینٹ کی تعمیرات نظر آئیں۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ