عام انتخابات 2024 کے بعد اب مخصوص نشستوں کی تقسیم کے معاملے سے آئینی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
اس کی وجہ سپریم کورٹ کا 12 جولائی کا فیصلہ ہے، جس میں الیکشن کمیشن کو مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو فراہم کرنے اور سنی اتحاد کونسل کے اراکین کو پی ٹی آئی میں شمولیت کا موقع دینے کا حکم دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف حکومت نے نظرثانی اپیل دائر کی مگر تاحال سماعت نہ ہوسکی لہذا حکمران اتحاد نے الیکشن ایکٹ میں پارلیمنٹ کے ذریعے ترمیم منظور کرالی کہ پارٹی وابستگی کے لیے تین دن مخصوص ہیں، جن پر عمل کیا جائے گا۔
الیکشن ایکٹ میں اس حکومتی ترمیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف نے دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم کے بقول ’ہم نے الیکشن ایکٹ میں پارلیمنٹ کی ترمیم کو سپریم کورٹ میں بیرسٹر گوہر خان کی جانب سے آرٹیکل 184/3کے تحت چیلنج کیا ہے۔‘
الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے متعلق صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت کی رائے ہے کہ’ آئین کے تحت جس طرح پارلیمان کو آئینی ترامیم کا حق ہے وہی آئین سپریم کورٹ ایسی ترامیم پر سماعت کا اختیار ہے جو آئین سے متصادم ہوں۔‘
اس ترمیم سے متعلق انڈپینڈںٹ اردو سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار وجاہت مسعود کا کہنا تھا کہ ’مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے تنازع سے ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کے ساتھ آئینی بحران کا خدشہ بھی پیدا ہو رہا ہے۔‘
البتہ ن لیگ پارلیمانی ترامیم کو آئینی اور تحریک انصاف غیر آئینی قرار دے رہی ہے مگر حتمی فیصلہ سپریم کورٹ نے ہی کرنا ہے۔
الیکشن ایکٹ میں ترامیم کا مستقبل کیا ہوگا؟
سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے اںڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پارلیمنٹ کو آئین یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی آئینی شق میں ترمیم کر سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پارلیمان نے جو حالیہ الیکشن ایکٹ میں ترامیم کی ہیں وہ بظاہر تو آئین کے مطابق ہیں لیکن سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی نے اس اقدام کو چیلنج کیا ہے تو اب دیکھنا یہ ہوگا کہ عدالت عظمی کس طرح اس درخواست پر سماعت کرتی ہے۔‘
سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں سے متعلق شہز شوکت کی رائے تھی کہ ’ابھی تو منظوری کے بعد بینچ تشکیل دیا جائے گا پھر اس پر سماعت ہوگی۔ ہوسکتا عدالت آئین کا جائزہ لے کر اپنے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اسی فیصلے پر عمل درآمد کا حکم دے۔’یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حکومت اور الیکشن کمیشن کی جانب سے 12جولائی کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیلوں پر فیصلہ تبدیل ہو جائے اور پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہ مل سکیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک سنجیدہ اور پیچیدہ کیس بن چکا ہے جس میں دونوں طرف سے آئین کا ہی سہارا لیا جارہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ’اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے حتمی طور پر عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے۔‘
تحریک انصاف کے رہنما عمر ایوب نے لاہور میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم پاس کی ہے وہ غیر آئینی اقدام ہے اور اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا اس کے علاوہ بھی ہر فورم پر چیلنج کریں گے۔‘
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب کی رائے تھی کہ ’یہ صرف پی ٹی آئی کا راستہ روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھی عمل نہیں کر رہی یہ معاملہ بھی عدالت کے سامنے اٹھائیں گے۔‘
وزیر قانون اعظم تارڑ نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ قانون سازی آئین کی روح کے عین مطابق ہے۔
وفاقی وزیر قانون نے بیان میں کہا کہ ’پی ٹی آئی کے جو ارکان آزاد حیثیت سے الیکشن میں شریک ہوئے ہیں انہوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا باقاعدہ بیان حلفی جمع کروایا۔‘
تحریکِ انصاف کی جانب سے ان ترامیم کی مخالفت کی وجہ بل کی یہ تحریر ہے کہ ’کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا اقرار نامہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔‘
یعنی جس رکن قومی اسمبلی نے کسی بھی جماعت میں شمولیت یا آزاد حیثیت برقرار رکھنے کا حلف نامہ جمع کروا رکھا ہے اسے تبدیل نہیں کیا جا سکے گا۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے 12جولائی کو سنائے گئے 13 رکنی فل کورٹ فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیلوں پر بھی سماعت ہونی ہے، جس میں آٹھ ججوں نے فیصلہ دیا جبکہ دو ججز صاحبان نے اختلافی نوٹ لکھاہے۔
الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا اطلاق کب سے ہوگا؟
مخصوص نشستوں کا تعین الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک فارمولے کے تحت کرتا ہے جس کا ذکر الیکشن رولز 2017 کے باب نمبر 6 میں موجود ہے۔
ترمیم شدہ ایکٹ کا اطلاق 2017 الیکشن رولز کے مطابق ہوگا تاہم 2023 کی ترامیم بھی قابل عمل ہیں اور جو اب کی گئی ہیں وہ بھی شامل ہیں۔
ماہر قانون میاں داؤد نے انڈپینڈںٹ اردو سے بات کرت ہوئے بتایا کہ ’حکومت نے الیکشن ایکٹ میں ترامیم کا اطلاق 2017 سے کرنے کا درج کیا ہے لہذا اس کے بعد پی ٹی آئی کے اراکین بھی اب شمولیت نہیں کر سکیں گے۔ اس قانون کا اطلاق خود بخود ہو گیا ہے جب تک اس ترمیم کو سپریم کورٹ کالعدم قرار نہیں دیتی۔‘
مخصوص نشستوں کا معاملہ کتنا پیچیدہ؟
سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ابھی تک پی ٹی آئی کے اراکین کو فہرست الیکشن کمیشن کو جمع کرانے کے باوجود مخصوص نشستیں الاٹ نہیں ہوسکیں۔
تجزیہ کار وجاہت مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ معاملہ صرف مخصوص نشستیں دینے یا نہ دینے کا نہیں بلکہ چیف جسٹس کی مدت میں اضافے کی قانون سازی کا راستہ روکنے کے لیے کیا جارہا ہے۔
’سپریم کورٹ کے آٹھ ججز نے 12جولائی کو جو فیصلہ دیا اور دو ججز نے اختلافی نوٹ بھی لکھا جو انہوں نے سوال اٹھائے وہ بہت اہم ہیں۔ جیسے آئین میں تو اراکین کے الیکشن جیتتے ہی کسی بھی پارٹی میں شمولیت کی مدت طے ہے پھر سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے حلف نامے جمع کراچکے ہیں۔ اب اگر وہ دوبارہ کسی اور پارٹی میں شامل ہونے کا حلف نامہ جمع کرائیں گے تو ان پر فلور کراسنگ کا قانون بھی لگے۔ ‘
وجاہت مسعود کے مطابق ’پارلیمان کو آئینی طور پر ترامیم کا اختیار ہے جو الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی گئی وہ آئین سے مطابقت رکھتی ہے۔ اس صورت حال میں سپریم کورٹ کس طرح پی ٹی آئی کی درخواست پر پارلیمانی آئینی ترامیم کو غیر قانونی قرار دے سکتی ہے۔ جو صورت حال بن رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ معاملہ آئینی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہ ’میرے ذاتی خیال میں یہ تنازع حکومت کی ایوان میں دوتہائی اکثریت کو متاثر کرنے کی کوشش ہے۔ تاکہ حکومت جوڈیشل ریفارمز جن میں چیف جسٹس کی مدت بڑھ سکتی ہے وہ نہ ہوسکے۔ لہذا آنے والے دنوں میں مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ حالانکہ یہ وقت مسائل بڑھانے کا نہیں بلکہ معاشی صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے ہر ادارے کے کردار کا تقاضا کرتا ہے۔‘
سپریم کورٹ بارکے صدر شہزاد شوکت کے بقول ’پی ٹی آئی نے آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی ہے جس میں الیکشن ترمیمی ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ کو بھی یہ اختیار ہے کہ وہ کوئی بھی ترمیم آئین سے متصادم ہونے پر کالعدم قرار دے سکتی ہے۔‘