لنڈی کوتل کی رہائشی مہک پرویز مسیح، اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون ہیں جو ایڈیشنل ایس ایچ او کے عہدے پر فائز ہوئی ہیں۔
اس سے قبل تحصیل باڑہ اور جمرود میں بھی خواتین کی ایڈیشنل ایس ایچ اوز تعیناتی ہو چکی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے مہک پرویز نے بتایا کہ ان کی تعیناتی پر ان کے خاندان، بالخصوص ان کے شوہر بہت خوش ہیں۔
مہک پرویز مسیح کہتی ہیں کہ ان کی تعیناتی اور پولیس میں سروس کا سہرا ان کے شوہر کو جاتا ہے جنہوں نے انہیں سپورٹ کیا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کو مزید کہنا تھا کہ’ 2016 میں میں نے پولیس ڈپارٹمنٹ کو جوائن کیا اور اب میں ایس ایچ او تعینات کی گئی ہوں۔ توقع تو اپنے آپ سے بہت زیادہ ہے کہ علاقے کی خدمت کروں گی اور قبائلی عوام کی بالخصوص خواتین کے لیے، جیسے ان کے جو بھی مسائل ہیں، ان کو حل کرنے کی کوشش کروں گی.
’قبائلی خواتین میں شعور نہیں ہوتا، ان میں تعلیم کی کمی ہوتی ہے، ان کو پتہ نہیں ہوتا کہ ہمارے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، ہم نے اس کے بارے میں کس طرح ایکشن لینا ہے، کس کے پاس جانا ہے، کس کو بتانا ہے، میری تعیناتی کے بعد اس بارے میں سوشل میڈیا پر میری بہت زیادہ پوسٹیں آ رہی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مہک پرویز کا کہنا ہے کہ پاکستان کے 1973 کے آئین کے مطابق مردوں اور خواتین کے حقوق برابر ہیں اور وہ اس ضمن میں خواتین کو ان کا حق دلانے کے لیے اپنی طرف سے بحیثیت ایک ایڈیشنل ایس ایچ او وہ اپنا کردار ادا کرتی رہیں گی۔
دوسری جانب فاٹا قومی جرگے کے ممبر ملک بسم اللہ خان آفریدی نے اپنے ایک بیان میں خواتین ایس ایچ اوز کی تعیناتی کو قبائلی رسم و رواج کے متضاد قرار دے کر ان کی مذمت کی ہے۔
ملک بسم اللہ خان آفریدی نے بتایا کہ قبائلی ضلع خیبر میں نو تھانے قائم کئے گئے ہیں جبکہ ان میں چار تھانوں میں خواتین ایس ایچ اوز کو تعینات کیا گیا ہے جبکہ پورے پشاور میں جہاں خواتین کے لیے ضرورت ہے، وہاں اتنی تعداد میں ایس ایچ اوز نہیں ہیں۔
دوسری جانب مہک پرویز مسیح کا کہنا ہے کہ ’زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اس کی مرضی ہے جب چاہے وہ اپنے پاس بلا لے۔ میں جب بھی وردی پہن لیتی ہوں تو کوئی ڈر کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا بلکہ ملک اور قوم کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہتی ہوں۔‘